امام خمینی(ره) کے وحدت و اتحاد کے نظرئے پر ایک نظر

الٰہی ادیان خصوصاً اسلامی فرقوں کے درمیان وحدت واتحاد برقرار کرنا حضرت امام خمینی (ره)کے نظریات اور آثار میں ایک واضح اصول کی حیثیت کا حامل ہے لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آپ کس قسم کی وحدت کو زندہ کیا ہے؟

ID: 45866 | Date: 2016/12/03

معمولی غور وفکر کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ عالم اسلام اور ادیان کو عقلانی وسیاسی دعوت دینے کے علاوہ حقیقی اور بنیادی وحدت واتحاد کو اس تفرقہ اور جدائی کا علاج جانتے ہیں ۔ آپ کے نزدیک ظاہری اور سیاسی وحدت واتحاد زیادہ پائیدار اور لائق اہمیت نہیں  ہے۔ آپ نے سورۂ حمد کی تفسیر کے دوران عارف اور عالم کے اختلاف کا سبب ایک دوسرے کی زبان اور تعبیر پر عدم توجہ کو قرار دیا، یعنی اگر یہ لوگ زبان کی بجائے معنی پر توجہ دیتے تو ان کے اختلافات کا خاتمہ ہوجاتا۔ آپ فرماتے ہیں :


’’عارف اور عالم کے بعض اختلافات اس وجہ سے پیش آتے ہیں  کہ یہ ایک دوسرے کی زبان کو اچھی طرح سے نہیں  جانتے ہیں ۔ ہر طبقے کی ایک خاص زبان ہے۔۔۔ مطلب تو ایک ہی ہوتا ہے مگر مختلف زبانوں  اور عبارتوں  میں  بیان ہوا ہوتا ہے۔ بات ایک ہے مگر زبانیں  جدا جدا ہیں ۔ فلاسفہ کی اپنی ایک خاص زبان ہے۔ ان کی اپنی خاص اصطلاحات ہیں ۔ عرفا کی اپنی خاص زبان اور اصطلاحات ہیں ۔ فقہا کی اپنی خاص اصطلاحات ہیں ۔ شعرا کی الگ ایک شاعرانہ زبان ہے اور معصوم اولیاء  (ع)  کی بھی اپنی ایک طرح کی الگ زبان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تین چار طبقات جو باہم اختلاف رکھتے ہیں  ان میں  سے کس کی زبان اہل عصمت کے زیادہ نزدیک ہے اور کس کی زبان وحی کے زیادہ قریب ہے؟۔۔۔ البتہ یہ جو میں کہہ رہا ہوں  کہ یہ ایک ہی بات کہتے ہیں  تو میرا مقصود یہ نہیں  ہے کہ میں  تمام فلاسفہ یا سب عرفا یا فقہا کو منزہ قرار دینا چاہتا ہوں ، نہیں ، بات یہ نہیں  ہے؛  ای بسا خرقہ کہ مستوجب آتش باشد۔


ممکن ہے کہ دکانداری ایسی باتوں  کا موجب بنی ہو جو اس دکان کیلئے مناسب ہوں ۔ میرا مقصود یہ ہے کہ ان طبقات کے درمیان بہت سارے افراد منزہ تھے اور ان کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف وہ تھے جو مدرسے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کی مثال اس اختلاف کی سی ہے جو مدرسے میں  اصولی اور اخباری کے درمیان پیدا ہوا‘‘۔(تفسیر سورۂ حمد، امام خمینی  (ره)، صفحات ۱۰۷ ، ۱۰۸)


آپ اسی کتاب میں  ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :


’’جنگ کیوں ؟ لڑائی کی وجہ کیا ہے؟ جس رنگ کا یہاں  ذکر کیا جاتا ہے اس سے مراد وہی تعلّق ہے جو دیگر عبارتوں  میں  آیا ہے۔ مثلاً، بعض شعرا نے بھی اسے استعمال کیا ہے؛ از آنچہ رنگ تعلّق پذیرد آزاد است


یہ رنگ جس کا یہ ذکر کرتا ہے اس کی بے رنگی یہ ہے کہ کسی مادی چیز کے ساتھ وابستہ ہو کر نہ رہ جائے۔ جب مادیات سے اپنا دامن بچالے تو یہ لڑائی ہی پیش نہیں  آتی۔ تمام لڑائیاں  اسی وجہ سے ہیں  کہ یہ مادیات کے ساتھ تعلّق جوڑے ہوئے ہے اور اس تعلّق کی بناپر مادیات کو اپنی ذات کیلئے چاہتا ہے۔ وہ دوسرا فرد بھی مادیات کے ساتھ اپنا تعلّق جوڑے ہوئے ہے۔ وہ مادیات کا اپنے لئے خواہاں  ہے، اس لئے تمام شئونات میں  سے ہر ایک میں  نزاع رونما ہوتا ہے۔


یہ شخص کہنا چاہتا ہے کہ اصلی فطرت میں  رنگ نہیں  ہے اور جب تعلّق کا رنگ نہ ہو تو نزاع نہیں ہوتا ۔موسی (ع)  اور فرعون کا مسئلہ بھی یہی ہے۔ یعنی جس طرح حضرت موسی  (ع) بے تعلّق تھے اگر فرعون بھی بے تعلّق ہوتا تو یہ سب نزاع پیش نہ آتے۔ اگر سارے انبیاء ایک جگہ جمع ہوجاتے تو ان میں  کوئی نزاع واقع نہ ہوتا۔ نزاع تعلقات کی بناپر ہوتا ہے۔( تفسیر سورۂ حمد، امام خمینی ره، صفحات ۱۱۲، ۱۱۳)


’’بے رنگی اسیر رنگ شد‘‘ یعنی وہ فطرت کہ جس پر رنگ اور تعلّق نہیں  تھا جب تعلّق کی اسیر ہوگئی تو نزاع کا آغاز ہوگیا۔ اگر رنگ کا خاتمہ ہوجائے تو موسی(ع)  اور فرعون میں  آشتی ہوجائے۔ یہ باب اس کا باب نہیں ہے۔ در عین حال جو یہ اعتراض ان پر کرتا ہے متوجہ نہیں  ہوا کہ یہ ان دو موجودات کے بارے میں  ہے جن کا آپس میں  اختلاف پایا جاتا ہے، اصل مسئلے کے بارے میں  نہیں  ہے‘‘۔


آپ دوسرے مقام پر اس موقف پر زیادہ روشنی ڈالتے ہوئے صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں :


’’بہرصورت یہ بدگمانیاں  اور یہ خود کو بھلائیوں  سے الگ کرلینا دکھ کا موجب ہے۔ اس طرح ایک حوزہ بھلائیوں  سے محروم ہو کر رہ جائے گا۔ حتی کہ فلسفے سے جو کہ ایک معمولی امر ہے کجا دیگر مسائل۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہوں  نے ایک دوسرے کا مطلب نہیں جانا ہے۔۔۔ اس وجہ سے یہ باتیں  اور ابحاث ہو رہی ہیں ۔ اگر یہ مطلب تک پہنچ جائیں  تو نزاع ختم ہوجائے گا۔ یہ صاحب جو ڈاڑھی اور عمامہ کے ساتھ اس شخص کو کافر قرار دے رہے ہیں  تو خدا جانتا ہے کہ یہ صاحب نہیں  جانتے ہیں  کہ وہ شخص کیا کہہ رہا۔ اگر یہ جان لیتا کہ اس کی مراد کیاہے تو یہ خود ہی اپنی بات واپس لے لیتا۔ اس کی مشکل یہ ہے کہ الفاظ کفر آمیز ہیں  اس کے نزدیک   علیت ومعلومیت جیسی چیزیں  غیر حقیقی تعبیریں  ہیں  حقیقت یہ نہیں  ہے‘‘۔(تفسیر سورۂ حمد، امام خمینی ره، صفحات ۱۲۱، ۱۲۲)


پھر جب آپ سورۂ حمد کی تفسیر کے اواخر میں  دعاؤں  کے فلسفے کو بیان کرتے ہیں  تو کسروی کے متعلق اور قوم کی زبان میں  غور وفکر کرنے اور فرقوں  اور نظریات کے بارے میں  حقیقت پسندی اور ان کا گہرا جائزہ لینے کی ضرورت کے بارے میں  فرماتے ہیں :


’’کسروی ایک مؤرخ تھا اس کی تاریخی معلومات بھی خوب تھیں ۔ اس کا قلم بھی اچھا تھا لیکن اس میں  تکبر پیدا ہوگیا یہاں  تک اس نے نبی ہونے کا دعویٰ کردیا۔ اس نے تمام دعاؤں  کو پس پشت ڈال دیا۔ قرآن کریم کو مانتا تھا، وہ پیغمبر کا درجہ گھٹا کر اپنی حد تک لے آیا تھا۔ خود بلندی تک نہیں جاسکتا تھا۔ ان کو گھٹا کر نیچے لے آیا۔ دعائیں  اور قرآن ایک ساتھ ہیں ۔ عرفاء، عارف مسلک شعرا اور فلاسفہ یہ سب ایک ہی بات کہتے ہیں ۔ مطالب جدا جدا نہیں  ہیں  تعبیرات مختلف ہیں  اور زبانیں  الگ الگ ہیں ۔ شاعری بجائے خود ایک زبان ہے۔ حافظ کی اپنی ایک خاص زبان ہے۔ حافظ انہی مسائل کو بیان کرتا ہے جن کو وہ بیان کرتے ہیں ، لیکن ایک دوسری زبان میں ‘‘(تفسیر سورۂ حمد، امام خمینی ره، صفحات۱۲۳، ۱۲۴)


اپنے سیاسی الٰہی وصیت نامہ میں  بھی آپ نے دنیا بھر کے مسلمانوں  کے درمیان، ایرانی قوم کے درمیان اور حوزہ ویونیورسٹی کے درمیان اتحاد کو اقوام، ایرانی قوم اور آئندہ نسلوں  کی کامیابی کا راز قرار دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :


’’آج اور آئندہ بھی ایرانی قوم اور دنیا بھر کے مسلمانوں  کو جس کے بارے میں  سوچنا چاہئے اور جس کی اہمیت پیش نظر رکھنی چاہئے وہ تباہ کن تفرقہ انگیز پروپیگنڈے کو ناکام بنانے سے عبارت ہے۔ مسلمانوں  خصوصاً ایرانیوں  کو خاص کر عصر حاضر میں  میری وصیت یہ ہے کہ ان سازشوں  پر اپنا رد عمل ظاہر کریں  جس طرح بھی ممکن ہو اپنے اتحاد کو بڑھائیں  اور کفار ومنافقین کو مأیوس کردیں ‘‘۔(نگرشی موضوعی بروصیت نامۂ امام ره، ص ۱۲۶)


پس یقینی طورپر کہا جاسکتا ہے کہ ادیان کے اتحاد، اسلامی فرقوں  کے اتحاد، پارٹیوں  اور گروہوں  کے اتحاد کے مسئلے کے حوالے سے امام امت  (ره) کے نظرئے کی مبانی عرفان متعالی والی مبانی ہیں  ۔