اسلام، غریبوں کا حامی اور سرمایہ داروں کا دشمن

’’اسلام نے شروع سے ہی یہ تحریک چلائی ہے اس لئے ہے کہ وہ ظالموں کے مقابلے کے لئے دنیا بھر کے ناداروں کی مدد کرنا اور ظالموں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانا چاہتا ہے‘‘

ID: 45018 | Date: 2016/09/01

عصر حاضر میں  اسلام کا صحیح تعارف کرانا حضرت امام خمینی(ره) کا عظیم کمال ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ صدیوں  میں  الٰہی ادیان مجملہ دین اسلام پر بڑے بڑے ظلم دولتمندوں  اور بااثر افراد نے اپنے مفادات کے حصول اور اپنی جیبیں  بھرنے کے لئے جہاں  تک ان سے ہو سکا دین خدا پر سرامایہ داروں  اور صاحبان طاقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا الزام لگایا۔ اسلام کا دفاع کرتے ہوئے ایسی تہمتوں  کو مسترد کرنا اور اس پاک الٰہی دین کا درخشان چہرہ لوگوں  کے سامنے پیش کرنا ایک ایسا عظیم کام تھا جسے اسلام انقلاب کے پرتو میں  انجام دیا گیا اور ابد تک کے لئے تمام الزامات کا مناسب جواب دے دیا گیا۔ امام خمینی(ره)  پیغمبر اکرم (ص) کو بادشاہوں  اور دولتمندوں  کا مخالف اور غریبوں  اور ناداروں  کا حامی جانتے ہیں ۔  آپ فرماتے ہیں: ’’پیغمبر اکرم (ص) نے بادشاہوں  کے مقابلے میں  صف آرائی کی اور جب آپ (ص)  مدینے تشریف لائے تب بھی آپ غریبوں  کے ساتھ رہے امیروں  کے ساتھ نہیں ۔۔۔  اور آپ (ص) نے غرباء کو عوام کا مال کھانے اور ان پر ظلم کرنے والے امراء کے مقابلے میں  تیار کیا‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۸، ص ۲۷۵)


سرمایہ داروں  کے ساتھ جنگ اسلام کے ساتھ مختص نہیں  ہے بلکہ ساری تاریخ میں  ہر الٰہی نظام نے ہمیشہ ناداروں  کی حمایت اور مستکبروں  کے ساتھ جنگ کی ہے اور ااج جو عالمی سطح پر نظر آرہا ہے یہ اسی تاریخی واقعے کی ایک مثال ہے۔


’’آج انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا کو ظلم شعار سپر طاقتوں کے مفادات میں ڈھالنے کے لئے کام کر رہی ہیں اور الٰہی نظام کہ جن میں سر فہرست اسلامی نظام ہے ہمیشہ سے مستضعفین کے حق میں مستکبرین کے خلاف صف آراء رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ استعمار اور استحصال کی نفی کی ہے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۸، ص ۲۷۵)


امام خمینی(ره) نے جس طرح اسلام کو پیش کیا ہے اس کے مطابق اسلام کا دامن نہ صرف سرمایہ داروں  اور لٹیروں  کے ساتھ اس کے ہم آہنگ ہونے جیسے الزامات سے پاک ہے بلکہ اسلام نے شروع سے ہی منہ زوروں  کے مقابلے کے لئے غریبوں  کی حمایت کو اپنی پالیسی میں  شامل رکھا ہے۔ 


’’اسلام نے شروع سے ہی یہ تحریک چلائی ہے اس لئے ہے کہ وہ ظالموں کے مقابلے کے لئے دنیا بھر کے ناداروں کی مدد کرنا اور ظالموں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانا چاہتا ہے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۴، ص ۱۰۷)


ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی اسلامی حکومت میں  غریب پر امیر کے ظلم اور اس کے استحصال کو ممنوع قرار دینے         کے ساتھ ساتھ لالچ کے ماروں  اور غارت گروں  کے قلع قمع کو اسلام کے مقاصد میں  سے قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’خداوند تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں  کہ جس نے مستکبرین کے خلاف مستضعفین پر کرم کرنے، زمین کو مستکبرین کی آلودگی سے پاک کرنے اور مستضعفین کو برسر اقتدار پرلانے کا ارادہ کیا ہے اور اسلام اسی مقصد کے پیش نظر آیا ہے اور اسلامی تعلیمات کا مقصد یہی ہے کہ کوئی مستکبر زمین پر نہ رہے‘‘۔  (ولایت فقیہ، ص ۳۔ ۳۲)


غربت کے خاتمے کے مسئلے پر اس واضح اسلامی نظرئیے کی بناپر ہی بانی اسلامی جمہوریہ ایران نے حوزہ اور یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ طبقے کو سرمایہ داروں  کی جانب سے محروم طبقے پر ہونے والے ظلم ستم کو بیان کرنے کے لئے زبان، قلم، فن اور اپنے اپنے معاشرتی مقام سے کام لینے کو کہا اور ان کو اس فرض کی انجام دہی میں  کوتاہی سے کام لینے، محرموں  سے رخ پھیرنے اور دنیا والوں  اور دنیا پرستوں  کی طرف مائل ہونے کے بارے میں  سخت انتباہ دیا۔


امام خمینی(ره) کے نزدیک فن وہ ہے جو محروموں  کا خدمتگار جبکہ سرمایہ داروں ، اپنی آسائش میں مصروف رہنے والوں  اور گمراہوں  سے ہمیشہ بر سرپیکار ہو۔  کس قدر خوبصورت ہے اس عظیم فن شناس اور ماہرین فن کے امام کا یہ مختصر لیکن عمیق بیان جو آپ نے فن کے بارے میں  اسلام کے نظرئیے کی تشریح میں  دیا ہے:


’’قرآن کے نزدیک واحد قابل قبول فن وہ ہے جو خالص محمدی (ص) اسلام ، ائمہ طاہرین (ع) کے اسلام،  درد مند غریبوں  کے اسلام ناداروں  کے اسلام،  تاریخ کے محروموں  اور مظلوموں  کے اسلام کو جلا بخشنے ولاا ہو۔  وہ فن زیبا اور پاکیزہ ہے جو جدید سرمایہ داری اور خون آشام کمیونزم کا قلع قمع کرنے والا اور آسائش وخود آرائی کے اسلام،  من پسند اسلام، باطل کے سمانے جھکنے اور پستی کے اسلام، بے درد آسائش پسندوں  کے اسلام الغرض امریکی اسلام کو نابود کرنے والا ہو۔  مکتب عشق میں  فن،  معاشرتی،  اقتصادی، سیاسی اور عسکری مسائل کے مبہم امور کی نشاندہی کرتا ہے۔  اسلامی عرفان میں  فن عدالت، شرافت ، انصاف نیز ان خالی شکم افراد کے مسائل کی تصویر کشی کا نام ہے جن پر طاقت ودولت نے مظالم ڈھائے ہیں ۔  فن اپنے حقیقی مقام میں  ان جونک صفت افراد کی نقشہ کشی ہے جو خالص اسلامی ثقافت اور عدالت اور خلوص کی ثقافت کو نابود کر کے لذت اٹھاتے ہیں۔ صرف ایسے فن پر توجہ دینی چاہئے جو مشرق و مغرب کے عالمی لٹیروں  جن میں  امریکہ اور سوویت یونین سر فہرست ہیں ،  کے مقابلے کا راستہ بتاتا ہو‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۳ ، ص ۱۸۔ ۳۱۷)


علما کا طبقہ ہزار سال سے زیادہ عرصے سے محروموں  کے لئے ایک پناہ گاہ بنا ہوا ہے ۔اس لئے امام خمینی(ره)  نے دوسروں  کی نسبت اسی طبقے کو زیادہ مخاطب قرار دیا ہے اور امام نے اس طبقے کو ناداروں  کے حامی ہونے کے فخر کو محفوظ رکھنے اور غربا، ناداروں  اور مفلسوں  کا ساتھ نہ چھوڑنے کی وصیت بھی کی ہے اور اس سلسلے میں  خبردار بھی کیا ہے۔  قائد انقلاب اسلامی ناداروں  کی حمایت کو علماء ، انقلاب اور ملک کے لئے فخر اور برکتوں  کا باعث جانتے ہیں  اور فرماتے ہیں :  ’’یہ ہمارے ملک،  انقلاب اور علما کے لئے باعث فخر اور برکات ہے کہ ہم ناداروں  کی حمایت کے لئے کمر بستہ ہو گئے ہیں  اور غرباء کے حقوق کا نعرہ بلند کیا ہے‘‘۔  (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۲۰۴)


امام خمینی(ره)  نے علما پر سرمایہ داروں،  دولت پرستوں  اور سرداروں  کے دست نگر ہونے پر مبنی لگائی جانے والی تہمتوں  کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے عظیم فقہا کی خدمت کو ایسی معرفت کی شفاف کوثر قرار دیا جس سے مستضعفین ہمیشہ سیراب ہوتے رہے ہیں ۔ ’’فرض شناس علماء جونک صفت سرمایہ داروں  کے خون کے پیاسے ہیں، ان علما نے کبھی بھی ان سے صلح نہیں  کی ہے اور نہ آئندہ کبھی کریں  گے‘‘۔  (صحیفہ امام، ج۱، ص۲۵۷)


امام خمینی (ره) نے علما کو جو ہدایات دیں  ہیں  ان میں  ناداروں  کی حمایت میں  کوتاہی سے کام نہ لینے اور اس راستے میں  اپنی حیثیت کو کام میں  لانے کی نصیحت کو نمایاں  مقام حاصل ہے۔  ’’ہمارے ملک کے فرض شناس علما کو زیادہ قربانی دینے کے لئے تیار ہونا چاہئے اور اگر ضرورت پڑے تو اسلام کے تحفظ اور مفلسوں  اور ناداروں  کی خدمت کے لئے اپنی ساکھ اور حیثیت سے استفادہ کرنا چاہئے‘‘۔  (صحیفہ امام، ج۱، ص۲۵۷)


اس کے علاوہ آپ نے خبردار کیا کہ ’’جس چیز سے علما کو ہرگز دستبردار نہیں  ہونا چاہئے اور اغیار کے پروپیگنڈے کی بنا پر اسے ترک نہیں  کرنا چاہئے وہ چیز عبارت ہے محروموں  اور ناداروں  کی حمایت سے ، کیونکہ جس نے اس اعراض کیا اس نے گویا اسلام کی معاشرتی عدالت سے اعراض کیا‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۲، ص ۲۶۳)