تحریک انتفاضہ عالم اسلام اور مسلم امہ کی تحریک ہے

تحریک انتفاضہ عالم اسلام اور مسلم امہ کی تحریک ہے

میں سالہا سال سے غاصب اسرائیل کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کر رہا ہوں۔ ان دنوں اس غاصب ریاست نے فلسطین کے مظلوم بھائیوں اور بہنوں پر اپنے حملوں کو شدید کر دیا ہے...

میں سالہا سال سے غاصب اسرائیل کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کر رہا ہوں۔ ان دنوں اس غاصب ریاست نے فلسطین کے مظلوم بھائیوں اور بہنوں پر اپنے حملوں کو شدید کر دیا ہے... میں تمام مسلمانانِ عالم اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کرتا ہوں کہ غاصب اسرائیل اور اس کے حامیوں کے بڑھتے ہاتھوں کو روکنے کے لیے آپس میں متحد ہو جائیں... خداوند عالم سے مسلمانوں کی اہل کفر پر کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
روح اللہ الموسوی الخمینی

 

صابر کربلائی کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے۔ وہ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں۔ صابر کربلائی کا نام پاکستان کے ان چیدہ چیدہ افراد میں سرفہرست آتا ہے کہ جنہوں نے ماضی یا حال میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے جدوجہد کی ہے۔ اس حوالے سے اسلام ٹائمز نے ان کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی ہے، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے:

 

اسلام ٹائمز: تحریک انتفاضہ کیا ہے؟

صابر کربلائی: غاصب اسرائیل کے وجود کے دن سے ہی سرزمین انبیاء علیہم السلام پر بسنے والے فلسطینی، غاصب اسرائیل اور صیہونیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بننا شروع ہوئے۔ آزادی فلسطین کے لئے جہاں جنگیں لڑی گئیں، وہاں فلسطینی عوام نے بھی اپنے حقوق کے غصب کئے جانے پر خاموشی اختیار نہیں کی، بلکہ فلسطینیوں نے جس جد وجہد کا آغاز کیا اسے "انتفاضہ" کہا جاتا ہے۔ "انتفاضہ" یعنی عوامی تحریک۔ فلسطین کی آزادی کی تحریکوں میں انتفاضہ فلسطین کی تحریک انتہائی مقبول اور کارگر ثابت ہوئی۔

۱) تحریک آزادی فلسطین کی تاریخ میں پہلا انتفاضہ 1987ء میں شروع ہوا اور 1993ء میں اختتام پذیر ہوا۔ یہ فلسطینی عوام کی ایک ایسی انقلابی تحریک تھی، جو تاریخ میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی نابودی کے ایک پیش خیمہ کے طور پر یاد کی جائے گی۔ اس انتفاضہ کے دوران، غاصب اسرائیل نے 1500 کے قریب فلسطینیوں کو قتل کر دیا، جبکہ جواب میں فلسطینیوں نے 200 سے زائد اسرائیلی فوجیوں پر حملے کئے اور ان کو جہنم رسید کیا۔

۲) تحریک آزادی فلسطین کی تاریخ کا دوسرا انتفاضہ اس وقت شروع ہوا جب کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات نے امریکی شرائط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسرا انتفاضہ 29 ستمبر 2000ء میں شروع ہوکر 2005ء میں اختتام پذیر ہوا۔ دوسرے انتفاضہ کا اختتام تقریباً پانچ ہزار فلسطینیوں کے قتل کے بعد ہوا، جبکہ اس انتفاضہ میں اسرائیل کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور 1200 سے زائد اسرائیلی فوجی اس انتفاضہ میں واصل جہنم ہوئے۔

۳) اور اب تیسرے انتفاضہ شروع ہوچکا ہے، جو اسرائیل کی مکمل نابودی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا، انشاء اللہ تعالی۔ حالیہ دنوں میں اس تیسری تحریک انتفاضہ نے مزید زور پکڑ لیا ہے اور اس میں فلسطینیوں نے قبلہ اول بیت المقدس کے دفاع کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا ہے اور اس دوران پورے فلسطین میں یہ تحریک پھیلتی چلی جا رہی ہے، جو یقیناً فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی میں نمایاں اثرات مرتب کرے گی۔

 

اسلام ٹائمز: فلسطینیوں کی اس تحریک انتفاضہ میں اور کون کون سے ممالک شامل ہیں؟

صابر کربلائی: دراصل فلسطینیوں کی یہ تحریک خالص فلسطینیوں کی تحریک ہے اور اس میں کوئی ملک شامل نہیں ہے اور شاید ہو بھی نہیں سکتا، پڑوسی ممالک فلسطینیوں کی مدد کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے ماضی قریب میں بھی اچھے حالات میں بھی سرکاری حمایت یا مدد نہیں کی تو اب کس طرح کریں گے؟

میں یہ سمجھتا ہوں کہ فلسطینی عوام آج صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام اور عالم انسانیت کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہوں نے کسی بھی مسلمان ملک سے یہ مطالبہ نہیں کیا ہے کہ ان کی تحریک آزادی میں کوئی ملک آکر ان کا ساتھ دے، تاہم یہ تمام مسلمان ممالک اور ان کے حکمرانوں کی اخلاقی اور سیاسی فریضہ ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کی اس جدوجہد کی حمایت کا اعلان کریں، یہ مسلم امہ کی برابر ذمہ داری ہے کہ وہ مسجد اقصٰی جو کہ قبلہ اول ہے اور اس کے دفاع کے لئے فلسطینیوں کی جدوجہد میں شانہ بہ شانہ کھڑی ہو، بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پوری دنیا خاموش اور مجرمانہ انداز میں تماشائی بنی ہوئی ہے اور مظلوم ملت فلسطین کو غاصب اسرائیل نے کشت و خون میں نہلا رکھا ہے۔

 

اسلام ٹائمز: تحریک انتفاضہ میں حزب اللہ کا کردار کیا ہے؟

صابر کربلائی: دیکھیں میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ فلسطینیوں کی تیسری تحریک انتفاضہ صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ یہ عالم اسلام اور مسلم امہ کی تحریک ہے، کیونکہ اس کا مقصد قبلہ اول بیت المقدس کو صیہونی غاصبانہ تسلط سے نجات دلوانا ہے، اس حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ کا کردار قابل تحسین ہے، حال ہی میں تہران میں ایک بین الاقوامی قدس کانفرنس منعقد کی گئی ہے، جس میں فلسطینیوں کی تحریک کی بھرپور حمایت کا اعلان اور فلسطین کو فلسطینیوں کا وطن قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے فلسطینیوں کی اس تحریک کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے پوری مسلم دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کی بھرپور حمایت کریں۔

 

اسلام ٹائمز: تحریک انتفاضہ کے حوالے سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان اور پاکستانیوں کا کیا کردار ہے؟

صابر کربلائی: فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے روز اول سے ہی فلسطینیوں کی اس تحریک انتفاضہ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا اور آج ایک مرتبہ پھر اعلان کرتے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی اور بالخصوص قبلہ اول کے دفاع کے لئے جاری تیسری تحریک انتفاضہ کی بھرپور اور مکمل حمایت کرتے ہیں، اس حوالے سے لاہور، اسلام آباد، میں مختلف طلباء تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے طالب علموں نے احتجاجی مظاہروں سمیت دستخطی مہم بعنوان "I Stand with Palestine" کا انعقاد بھی کیا گیا، جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس عنوان سے بھرپور مہم کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

میں آخر میں ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ جب تک ہمارے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے اور ہماری سانس باقی ہے، فلسطینیوں کو کسی میدان میں تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ہر سطح پر سیاسی و اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے اور اس راستے میں اگر موت بھی نصیب ہوتی ہوئی تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑی سعادت شاید کوئی نہیں ہوسکتی، کیونکہ آج اگر پیغمبر اکرم حضرت محمد (ص) زندہ ہوتے تو کیا کرتے؟ اگر امام حسین (ع) ہمارے درمیان ہوتے تو کیا کرتے؟ یقیناً میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین کے لئے قیام کرتے اور مظلومین جہاں کو ظالمین جہاں سے نجات دلواتے۔


بشکریہ اسلام ٹائمز، تلخیص کے ساتھ

ای میل کریں