یعنی علمائے کرام، سیاسی اور مذہبی جماعتوں ، دانشوروں ، تاجروں ، مزدوروں اور کسانوں انقلاب اسلامی کے محافظین کی گارڈ ، فوج ، (انقلابی) کمیٹیوں، گورنروں ، ائمہ جمعہ، عوام اور حکومت وغیرہ طبقات کے درمیان اتحاد۔ چنانچہ امام خمینی(ره) نے ایک مقام پر فرمایا ہے : ’’آپ کو معلوم ہے جس بات نے اس تحریک اور انقلاب کو کامیاب بنایا ، وہ ایمان تھی اور مومنین آپس میں جس طرح قرآن مجید نے فرمایا ہے ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔۔۔ آپ کو علم ہے کہ آج ہمارے ملک کو مسلح افواج کی یکسوئی کی ضرورت ہے اور اگر خدا نخواستہ انقلابی کمیٹیوں اور انقلاب کے محافظین کی گارڈ میں مفاہمت نہ ہو تو آپ اپنے مقصد یعنی اسلام تک نہیں پہنچیں گے اور کبھی اس سوچ میں نہ رہئے کہ میں انقلابی کمیٹی سے تعلق رکھتا ہوں اور صرف ان کمیٹیوں کی کارکردگی بہتر ہونی چائے اور سپاہ پاسداراں والے بھی اس طرح کی باتیں کریں ، بلکہ اس فکر میں رہیں کہ آپس میں اخوت اور بھائی چارے سے معاملات نمٹادیں اور اس قرآنی اصول پر کاربند رہیں کہ مومن آپس میں بھائی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ دوست اور مہربان رہیں ایک دوسرے کی بھلائی چاہیں اور اندرونی فکر و اندیشے اور نفسانی خواہشات پر مبنی سپاہ پاسداراں اور انقلابی کمیٹی کے درمیان فرق و امتیاز کی باتیں چھوڑ دیں ، یہی معاشرے کی کامیابی کا راز ہے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۷، ص ۴۰)
مندرجہ بالا ارشادات میں حضرت امام خمینی(ره) {انما المومنون اخوۃ} کے آسمانی عہد و میثاق کی بنیاد پر اخوت اور بھائی چارے کی تاکید کرتے ہوئے اتحاد کی دعوت دیتے ہیں ۔
ان میدانوں میں حضرت امام خمینی(ره) سب سے بڑھ کر اخوت کے معنوں میں اسٹریٹیجک اتحاد چاہتے تھے اور اتحاد قائم کرنے کے لئے تزکیہ نفس کی تلقین فرماتے اور ملکی امن و سلامتی اور اسلامی نظام کی ترقی و پیشرفت کے لئے اس قسم کے اتحاد کے قیام کو ضروری سمجھتے تھے اور وہ زیادہ تر شیطانی وسوسوں اور ذاتی اغراض و مقاصد کو ان اختلافات کا سرچشمہ سمجھتے تھے اور وحدت و یک جہتی کے حصول کے لئے تزکیہ نفس کی تلقین فرماتے تھے۔
امام خمینی(ره) اپنے دور ذمہ داری میں اس طرح کی وحدت کی تلقین فرماتے رہے اس سلسلے میں وہ معاشرے کے مختلف طبقات اور سیاسی حکام کو متنبہ کرتے رہتے اور بعض مراحل پر ان کی سرزنش کرتے تھے۔
اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ایک مقام پر گورنروں سے مخاطب ہو کر امام (ره) نے فرمایا: ’’گورنر صاحبان کو آپس میں متحد ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے ساتھ بھی انہیں ایک دل ہونا چاہئے اس لئے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ خداوند عالم کے فضل وکرم اور اس قوم کی وجہ سے ہے۔ آپ کو متحد ہونا چاہئے تاکہ آپ محفوظ رہیں ۔ آپ کے درمیان تفرقہ و اختلاف پیدا کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور اس بات کا دھیان رہے کہ تفرقہ انگیز باتیں کرنا گناہ کبیرہ ہے اور مشکل ہے کہ خدا اسے بخشے، چاہے ہمارے دشمن اس طرح کی باتیں کریں یا ہمارے دوست اور چاہے ایسی باتیں تقدس اور شرافت کے دعویداروں کے منہ سے نکلیں یا ان لوگوں کے جو اس قسم کے دعوے نہیں کرتے‘‘۔
تاہم اس طرح کے اختلافات جہاں نفسانی خواہشات اور خود غرضی کی بنیادوں پر پیدا ہوتے ہیں وہاں شکوک و شبہات ، سوچ کی غلطیاں اور غلط فہمیاں بھی دوسروں کے بارے میں غلط رائے قائم کرنے اور طبقاتی و جماعتی اختلافات کی باعث بنتی ہیں ، لیکن امام خمینی(ره) اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ان اختلافات کو طالب علمی کے دور کے مباحث گردانتے تھے اور وہ ان اختلافات کو ناپسندیدہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کا فرمانا یہ تھا کہ ایسی باتیں فطری ہیں ، دوسری عبارت میں اس سلسلے میں حضرت امام خمینی(ره) اسٹریٹیجک اتحاد نہیں چاہتے تھے بلکہ حکمت عملی پر نظر رکھتے تھے۔