امام خمینیؒ کے ساتھ عراقی ایجنسیوں کی ناکام ملاقاتوں کے بعد نجف اشرف میں امام اخمینی ؒ کی رہائشگاہ کو بعثی فورسز نے اپنے محاصرے میں لے لیا ، لیکن امام خمینیؒ اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔ آخر کا ر بعث پارٹی کی سپریم کونسل ( قیادۃ الثورۃ ) نے امام خمینی ؒ کو عراق سے نکال دینے کا حکم صادر کر دیا ۔ امام خمینیؒ نے کویت جانے کا ارادہ کیا ۔ لیکن کویتی حکومت نے کئی گھنٹے تک لیت و لعل سے کام لینے کے بعد کویت میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا ۔ یوں امام خمینیؒ اور ان کے ساتھی مجبور ابصرہ واپس آگئے ۔ اس کے بعد شام جانے کا فیصلہ ہو ا۔ لیکن شامی حکام کی طرف سے ملک میں داخل ہونے اور سیاسی سر گرمیوں کو جاری رکھنے کی اجازت کا حصول غیر یقینی کیفیت سے دو چار تھا ۔
فرانس میں امام خمینی ؒ کا مختصر قیام یورپی مسلمانوں تک ان کے پیغام کو پہنچانے اور وہاں سے کسی دوسرے ملک میں منتقل ہونے کے لئے مفید ثابت ہو سکتا تھا ، فرانس جانے کی تجویز میں نے پیش کی تھی ۔ امام خمینی ؒ نے اس تجویز پر غور و فکر اور دیگرممالک کے بارے میں بحث و تمحیص کے بعد پیرس جانے کے عزم کا اظہار فرمایا ۔ آخر کار ۱۳ مہر ۱۳۵۷۔ ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۸ء کو امام خمینی ؒ میرے اور اپنے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ بغداد سے پیرس کی طرف روانہ ہوئے بعض لکھنے والوں نے نقل تاریخ میں خیانت سے کام لیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ فرانس کی طرف سفر کے فیصلے میں کسی اور فرد یا گروہ کا دخل رہا ہے ، حالانکہ یہ بات حقیقت کے بر خلاف ہے اور اصل واقعہ وہی ہے جس کا ہم نے تذکرہ کیا ۔ چنانچہ امام خمینیؒ نے بھی اپنے وصیت نامے کے آخر میں صریحا فرمایا :
’’ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ میرے پیرس جانے میں ان کا دخل رہا ہے ۔ یہ جھوٹ ہے ۔ کویت سے لوٹائے جانے کے بعد میں نے احمد کے مشورے پر پیرس جانے کا انتخاب کیا تھا۔ کیونکہ اس بات کا احتمال تھا کی اسلامی ممالک میں داخلے کی اجازت نہ ملے ۔ اسلامی ممالک شاہ کے زیر اثر تھے ، لیکن پیرس کے بارے میں اس قسم کا خدشہ نہ تھا ‘‘
پیرس پہنچتے ہی حکومت کے نمائندوں نے امام خمینی ؒ سے ملاقات کر کے ان کو باقاعدہ طور پر اس سرکاری فیصلے سے آگاہ کیا کہ انہیں ہر قسم کی سیاسی سر گرمیوں سے اجتناب کرنا ہو گا ۔ امام خمینیؒ نے جس طرح عراقی حکام کو دو ٹوک جواب دیا تھا اسی طرح ان کو بھی جواب دیتے ہو ئے فرمایا :
’’ ہمارا خیال تھا کہ یہاں کی صورت حال عراق سے مختلف ہو گی ۔ میں جہاں جاؤں گا اپنی بات کہے بغیر نہ رہوں گا ۔ میں ایک ہوائی اڈے سے دوسرے ہوائی اڈے کی طرف اور ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف منتقل ہوتا رہوں گا تاکہ دنیا کو یہ بتا دوں کہ دنیا کے سارے ظالم اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ دنیا والے ہم مظلوموں کی آواز نہ سن سکیں ، لیکن میں ایران کے بہادر عوام کی آواز دنیا تک پہنچا کر دم لوں گا ۔ میں دنیا کو بتا دوں گا کہ ایران پر کیا بیت رہی ہے ؟ ‘‘
فرانسیسی حکومت کی طرف سے پابندی کے بعد ملک کے اندر اور باہر سے سیاسی و مذہبی شخصیتوں ، انجمنوں ، طالب علموں اور علماء کی طرف سے صدر جسکار دیستاں اور فرانسیسی حکام کے نام ٹیلی گرام اور خطوط کا تانتا بندھ گیا جن میں رہبر انقلاب کی سر گرمیوں کو آزاد رکھنے کا مطا لبہ کیا گیا تھا ۔
اما م خمینی ؒ کی مقبولیت اور رائے عامہ کے دباؤ کے تحت فرانسیسی حکام کا رویہ عملی طور پر نرم ہو گیا ۔ اگرچہ اس با ت کا انہوں نے سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا ۔
پیرس کے مضافات میں نوفل لوشاتو کے مقام پر امام خمینی ؒ دن رات مصروف عمل تھے ۔ آپ فقط چند گھنٹے استراحت فرماتے تھے ۔ طالب علموں اور ملا قا تیوں کے سامنے امام خمینی ؒ کی تقاریر ، خبر رساں ایجنسیوں کے ساتھ مسلسل انٹرویوز اور ایران کے حالات سے متعلق آپ کے متعدد بیانات سے اسلامی انقلاب کی تحریک کو لحطہ بہ لحظہ رہنمائی مل رہی تھی ۔