خانم زہراء مصطفوی:

امام خمینی (ره) کا ٹائم ٹیبل

امام (ره) کا ہر روز کا ٹائم ٹیبل بڑا منظم تھا، یعنی اگر ان کے ہر روز کا ٹائم ٹیبل کو تقریباً ۳۶۵ سے ضرب دیں تو امام کا سالانہ ٹائم ٹیبل بھی معلوم ہوجائے گا

ID: 41165 | Date: 2015/09/22

امام جب صبح کو سات بجے کام کیلئے دفتر میں  آتے تھے تو ملاقاتیں  شروع ہوتی تھیں ۔ البتہ کبھی کبھی اسی وقت ڈاکٹر ان کا کوئی معاینہ بھی کرتا تھا یا بعض دفعہ کچھ لوگ جیسے آقائے رسولی یا آقائے توسلی وہاں  ہوتے تھے، چونکہ میں  ان شعبوں  سے تعلق نہیں  رکھتی تھی لہذا تفصیلاً ان امور کی ترتیب میرے علم میں  نہیں  ہے۔ لیکن یقینا کچھ ملاقاتیں  جیسے عقد یا خصوصی ملاقاتیں  ہوتی تھیں  یا جن کے کام ہوتے تھے ان سے ملاقات ودیدار کا پروگرام ہوتا تھا۔ جب ملکی پیمانے پر امام سے مربوط کوئی کام ہوتا اور اس کیلئے پہلے سے وقت لیا جاتا اور ان کاموں  کے بارے میں  امام سے رائے لی جاتی تھی۔ امام ان امور کو انجام دینے کے بعد وہاں  سے تقریباً نو بجے اپنے کام کیلئے اپنے دفتر کی طرف واپس آتے تھے اور یہ آپ کی چہل قدمی کا وقت ہوتا تھا۔ پھر آدھ گھنٹے تک ٹہلنے کے بعد ساڑھے نو بجے اپنے کمرے میں  جاتے تھے تاکہ مطالعہ سے متعلق جو امور ہیں  اسے مکمل کریں ۔ مثلاً خبریں  اور ملک بھر سے ارسال شدہ رپورٹس جو کہ سارے بند اور مہر شدہ ہوتی تھی۔ خود امام  ؒہی ان کو کھولتے تھے اور پابندی سے ان کا مطالعہ کرتے تھے۔ ان کے پڑھنے میں  ۴۵:۹ بج جاتے تھے۔ اس وقت آپ کیلئے کوئی پھل وغیرہ لایا جاتا تھا جس کو آپ تناول فرماتے تھے۔ البتہ یہ پھل موسم کے اعتبار سے مختلف ہوتے تھے۔ مثلاً مالٹا، شہ توت یا کچھ اور۔ پھر ذرا سا سوجاتے تھے، یعنی ۱۰:۱۰ بجے استراحت کیلئے جاتے ہیں  اور ۳۰:۱۱ تک استراحت فرماتے تھے۔ (البتہ ہمیں  نہیں  معلوم، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ امام سو رہے ہوتے تھے کہ جاگ رہے ہوتے تھے)۔ ۳۰:۱۱ بجے بیدار ہوتے تھے تاکہ نماز ودعا وغیرہ کیلئے تیار ہوجائیں ۔ یعنی وضو، قرآن اور اس کے بعد نافلہ اور نماز۔ پھر ایک بج کے پانچ منٹ پر دوپہر کے کھانے کیلئے آتے تھے۔ جب نماز ختم ہوجاتی تو ایک بج کے پانچ منٹ تک جو تقریباً دس منٹ تک وقفہ ہوتا تھا اس دس منٹ میں  اگر آپ کی اولاد میں  سے کوئی ہوتا تو اس کیلئے امام سے بات کرنے کا اچھا وقت ہوتا تھا۔ اگر کوئی نہیں  ہے تو امام  ؒدوبارہ ان خطوط کے مطالعہ میں  مصروف ہوجاتے تھے۔ جو صبح کے باقی بچے ہوتے تھے۔ ٹھیک ایک بج کے پانچ منٹ پر کھانے کیلئے تشریف لاتے تھے۔ آپ کا دوپہر کا کھانا روزانہ ہی گوشت وشوربہ ہوتا تھا۔ اس میں  کچھ لیمو بھی مکس ہوتا تھا۔ اگر اس میں  ذرا سی بھی تبدیلی ہوجاتی تو پسند نہیں  فرماتے تھے۔ سب سے زیادہ گوشت وشوربہ جس میں  لیمو مکس ہوا ہوتا تھا، پسند کرتے تھے۔ لیکن اگر چاول سالن ہوتا تھا تو وہ بھی کھاتے تھے۔ بہرحال کچھ تو کھاتے تھے۔ جبکہ گھر کے دوسرے افراد کیلئے گوشت وشوربہ نہیں  ہوتا تھا، چونکہ گوشت وشوربہ امام کیلئے ہی مخصوص بنایا جاتا ہے۔ البتہ ان کے کھانا کھانے کی ترکیب اس طرح ہوتی، پہلے ایک کپڑا اپنے سامنے پھیلاتے تھے جس کے دھاگے گردن سے بندھے ہوتے تھے اور یہ کپڑا سینے سے دامن تک پھیلا ہوا ہوتا تھا۔ پھر اس کے اوپر ایک پلاسٹک ہوتی تھی۔ یہ سب چیزیں  پہلے سے منظم ومرتب ہوتی تھیں ۔ ان کے دوپہر کے کھانے کے ٹائم ٹیبل میں  کوئی اونچ نیچ نہیں  ہوتی تھی، یعنی اگر کبھی گوشت وشوربہ کا کاسہ یا اس کی پلیٹ بھی بدل جاتی تو پوچھتے تھے کہ ایسا کیوں  ہوا؟ درحالیکہ پلیٹ کا غذا سے کوئی تعلق نہیں ۔ صرف اتنی سی بات ہے کہ یہ سالن کا کاسہ ہے اور یہ ہمیشہ کی طرح کاسہ کے نیچے کی ایک ٹرے ہے۔ سالن کا کاسہ اور چمچ سب ان کے مخصوص ہوتے تھے۔ جب کھانا تناول کرتے تھے تو تھوڑی دیر کیلئے ذرا سی بات کرتے تھے خاص کر جب میں  وہاں  ہوتی تھی یا ان کی بیٹی، پوتی، ناتی نواسے میں  سے کوئی ہوتا تھا۔ البتہ اس پوری مدت میں  ریڈیو ان کے ساتھ ہوتا تھا اور وہ ریڈیو سنتے تھے۔ پارلیمنٹ کی کاروائی سنتے تھے۔ ایک سے دو بجے تک ہونے والی تقاریر بھی ضرور سنتے تھے۔ دو بجنے سے پہلے اپنے کمرے میں  جاتے ہیں  اور دو بجے کی خبریں  اپنے کمرے ہی میں  سنتے تھے۔ تقریباً سہ پہر تک اخباری رپورٹس بھی پڑھ لیتے تھے۔ پھر آرام کرتے تھے اور ٹھیک چار بجے اٹھ کے چائے پیتے تھے۔ پھر آدھ گھنٹہ تک ٹہلتے تھے اور اس ٹہلنے کی حالت میں  ذکر میں  بھی مصروف رہتے تھے۔ لیکن اگر ملکی اعتبار سے یا سیاسی لحاظ سے کوئی خاص مسئلہ ہو تو لازمی طورپر ریڈیو سنتے تھے۔ ان کے ریڈیو کا لمبا بلٹ ہوتا تھا جس کو بازوں  میں  ڈال لیتے تھے اور گاہے ریڈیو کے ساتھ ساتھ اخبار بھی پڑھتے رہتے تھے۔ کبھی ہاتھ میں  تسبیح لے کر ذکر کرتے تھے۔ البتہ اسی موقع پر کبھی بچے (پوتے نواسے) ان کے گرد جمع ہوجاتے تھے، ان کو الگ بٹھا دیتے تھے۔ جبکہ امام  ؒان کو کبھی کچھ نہیں  کہتے تھے۔ یہ بھی اس وقت ہے کہ آپ ریڈیو سننا نہیں  چاہتے تھے۔ لیکن خاص مواقع اور حالات میں  کوئی اجازت نہیں  دیتے کہ بچے آپ کے قریب جمع ہوں  یا ہم کوئی بات کریں ۔ خاص مواقع پر تو ریڈیو سننا ان کیلئے ضروری ہوتا تھا۔ ساڑھے چار بجے ٹہلنے کا وقت ختم ہوجاتا تھا۔ پھر ایک کپ چائے پیتے تھے۔


          البتہ اگر گرمی کا موسم ہوتا تھا تو اس پروگرام میں  ذرا سی تبدیلی ہوجاتی تھی، یعنی ایسا نہیں  کہ چار بجے ہمیشہ آپ بیدار ہوجاتے ہوں ۔ البتہ یہ دن کے لمبے اور چھوٹے ہونے سے مربوط ہے۔ اگر دن لمبا ہوتا تھا تو ٹہلنے کے بعد صبح وشام کے مختلف اخبارات کی خبروں  کو کچھ پڑھتے تھے۔ جن چیزوں  پر امام خمینی  ؒ بہت زیادہ توجہ دیتے تھے وہ مقالے کا عنوان یا تقاریر ہوتی تھی۔ امام ان کے بارے میں  ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتے تھے اور اس کے بہت پابند تھے کہ ان کو خود ہی مطالعہ کرتے تھے۔ اگر کبھی تھکے ہوتے تھے۔ ہم ان کے ساتھ ہوتے تھے تو اس غرض سے کہ ہم بالکل بے کار نہ رہیں ۔ ہم سے کہتے تھے یہ اخبار پڑھ کر سناؤ۔ اس وقت بعض نکات جن کو امام جاننا چاہتے تھے۔ ہم ان کو پڑھ کر سناتے تھے۔ مغرب سے پہلے پھر قرآن پڑھتے تھے اور اس کے بعد نماز کیلئے تیار ہوتے تھے۔ آپ ہمیشہ نوافل کے ساتھ نماز واجب ادا کرتے تھے۔ اکثر اوقات صحن میں  جا کر کھلے آسمان کے نیچے نماز پڑھتے تھے۔ صرف اگر موسم بہت ٹھنڈا ہو اور سردی لگنے کا اندیشہ ہوتا تھا تو پھر اپنی جگہ پر پلٹ آتے تھے اور مطالعہ میں  مصروف ہوجاتے تھے۔ جن کتابوں  کے مطالعہ کو اپنے لیے ضروری سمجھتے تھے وہ زیادہ تر جدید طبع ہونے والی کتابیں  تھیں ۔ ان کو گہری توجہ سے دیکھتے تھے۔ اس کے ہمراہ بہت سے اخبار ورسالے بھی پڑھتے تھے۔ لیکن جس وقت سے ٹیلی ویژن پر عصر کے وقت اخبار کا پروگرام شروع ہوا ریڈیو کو تقریباً چھوڑ دیا تھا اور ٹیلی ویژن دیکھتے تھے۔ چاہے پہلا چینل ہو یا دوسرا۔ جب نماز پڑھ چکے ہوتے اور ضروری مطالعات سے فارغ ہوجاتے تھے پندرہ سے بیس منٹ تک مجھے یاد نہیں  ہے کہ کیا کام کرتے تھے۔ شاید کبھی دوسرے ملکوں  کی خبرین بھی سنتے تھے یہاں  تک کہ شام کے سات بج جاتے تھے۔ خبریں  اتنی توجہ سے سنتے تھے کہ اس وقت صرف ہمارے سلام کا جواب ہی دیتے تھے یا اگر زیادہ احوال پرسی کرنا چاہتے تو آنکھوں  کے اشارے سے خیریت پوچھتے تھے، یعنی اس وقت ہمیں  بالکل چپ رہنا ہوتا تھا۔ اگر ہم امام  ؒکے کمرے میں  ہوتے تھے تو ہمارے لئے آپس میں  گفتگو کرنا بھی مشکل ہوجاتا تھا، چونکہ اس سے  امام  ؒناراض ہوتے تھے، لیکن کچھ کہتے نہیں  تھے۔ البتہ ہم خود ان چیزوں  کا خیال رکھتے تھے۔ خبروں  اور رپورٹس کے بعد اگر کبھی کوئی خاص تقریر یا انٹرویو ہوتا تھا تو ضرور امام اس کو سنتے تھے۔ امام کو اپنے مزاج کے اعتبار سے بعض پروگرام کچھ زیادہ اچھے لگتے تھے۔ مثلاً فیملی پروگرام کو وہ پسند نہیں  کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں  ان کی خدمت میں  تھی اور فیملی پروگرام نشر ہو رہا تھا۔ امام  ؒ نے ٹیلی ویژن کی طرف ایک نظر دیکھا اور اسے آف کردیا۔ میں  نے عرض کیا: کس لیے ٹیلی ویژن بند کردیا آپ نے؟ فرمایا: یہ پروگرام بالکل اچھا نہیں  ہے۔ میں  نے عرض کیا: کیوں ؟ فرمایا: اس میں  بناوٹ بہت ہے اور بالکل اچھا نہیں  ہے۔ پندرہ منٹ تک اخبار سننے کے بعد اب ہلکی سی ورزش کا وقت ہوتا تھا اس لیے آپ ذرا سا سستانے کیلئے زمین پر لیٹ جاتے تھے ایک تکیہ اپنے سر کے نیچے رکھتے تھے۔ پھر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق پاؤں  باری باری اوپر اٹھاتے تھے اور زانو تک خم کرتے تھے پھر سیدھا کرتے تھے۔ اس ورزش کو بھی ایک دو کر کے خود گنتے تھے۔ امام  ؒرات کا کھانا ٹھیک نو بجے کھاتے تھے۔ لیکن کھانا آمادہ کر کے لانے میں  جتنا وقت لگتا تھا اتنی دیر تک ٹیلی ویژن دیکھتے تھے۔ کھانے کے بعد پھر اپنے کچھ امور انجام دیتے تھے ان کاموں  سے فارغ ہونے تک تقریباً دس بج جاتے تھے۔ دس بجے یا دس بج کے دس منٹ پر آرام کیلئے اپنے کمرے میں  چلے جاتے تھے۔ پھر ڈھائی بجے رات کو نماز شب کیلئے بیدار ہوتے تھے (یہاں  البتہ موسم کی تبدیلی کے لحاظ سے آپ کے اس ٹائم میں  کچھ تبدیلی ہوتی تھی اور سونے اور اٹھنے کا وقت ذرا سا بدل جاتا تھا) تقریباً نماز شب سے لے کر فجر کی نماز تک نوافل پڑھتے تھے۔ نماز شب کے بعد نماز فجر تک کیلئے جو وقفہ بچتا تھا اس میں  بعض ان استفتاء ات کا جواب دیتے تھے کہ جن کا جواب خود امام ہی کو دینا ہوتے تھے، لہذا اسے  پیکٹ میں  رکھ کے آپ کے پاس بھیج دیا جاتا تھا۔ اس وقفے میں  امام ان کو چیک کرتے تھے۔ پھر اس کے بعد فجر کی نماز پڑھتے تھے۔ نماز فجر کے بعد ذرا سا آرام کرتے تھے پھر چھ بجے اٹھتے تھے اور آدھا گھنٹے تک ورزش کرتے تھے۔ پھر قرآن پڑھتے تھے۔ آپ کا ناشتہ ۳۰:۶ پر تیار ہوجاتا تھا اور آپ عام طورپر سات سے پہلے ناشتہ کرلیتے تھے۔ پھر سات بجے دوبارہ دفتر کیلئے روانہ ہوجاتے تھے۔