مصطفی میرسلیم تہران میں سنہ 1326(مطابق :1947)کو پیدا ہوئے ۔ آپ،جناب ہاشمی رفسنجانی کی دوسری حکومت کے دور میں امیرکبیر یونیورسٹی کی علمی کمیٹی کے عضو اور ثقافت اور اسلامی گائیڈنس کے وزیرتھے ۔ اسی طرح آپ تشخیص مصلحت نظام کے عضوبھی ہیں ۔
جماران : جناب میرسلیم صاحب آپ نے سنہ 59 اور 60 (مطابق 1971،1981)میں امام خمینی (رح) سے دو ملاقتیں کی،کیا ان یادگار نشستوں کے بار ے میں کچھ یادیں آپ کے ذہن میں ہیں؟
جناب میرسلیم : جی،میں نے ان سالوں میں مختلف ملاقتیں امام کے ساتھ کی،اس وقت میں جنگ زدگان فاؤنڈیشن کے صدرکے عنوان سے سرگرم تھا، چنانچہ زیادہ تر یہ ملاقتیں اسی موضوع سے مربوط ہوتی تھیں ۔ جس وقت جنگ شروع ہوئی، دشمن کے حملوں کے نتیجے میں، سرحدی شہروں میں رہنے والے ہمار ے ہم وطنوں میں سے کافی تعداد، منجملہ آبادان اور خرمشہر کے شہری اپنی جائے سکونت چھوڑنے پر مجبور ہوئے،جس سے بہت زیادہ دباؤ عوام پر پڑا۔ جہاں سے ان گھرانوں اور افراد کو مناسب طور پر منظم اور ان کے امورکی دیکھ بھال کرنا،حکومت وقت کی اہم سرگرمیوں میں شمارہوتاتھا ۔ اس وقت میں نے جناب شہید رجایی کو متعدد تجاویز دی،انھوں نے مجھ سے فر مایا: آپ جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کریں، کیونکہ میں اس زمانے میں وزارت داخلہ میں متعدد عہدوں پرتھا،اس لئے یہ ذمہ داری بھی میر ے سپرد کی دی گئی، چنانچہ حضرت امام کےساتھ متعدد ملاقاتیں اور نشستیں رکھنا ناگزیز تھیں ۔
جماران : ملاقاتوں میں سب سے اہم ترین چیز جس کی سفارش امام(رح) نے کی تھی وہ کیا تھی؟
جناب میرسلیم : امام سے میں نے دو ملاقتیں کی ۔ جو ملاقات میر ے ذہن میں ہے اس کے بارے میں کچھ بتاتاہوں ۔ عید کی مناسبت سے ہم جماران امام کی ملاقات کے لئے گئے ۔جب وہاں حاضر لوگ چلے گئے میں دست بوسی کے لئے امام کے پاس گیا۔ امام جانتے تھے کہ میں جنگ زدگان کا دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری میر ے حوالے کیاگیاہے ،امام نے فرمایا:مغربی گیلان میں کچھ ایسے جنگ زدے لوگ ہیں جن کے حالات اور شرائط اچھی نہیں ہیں،ان کادیکھ بھال کریں ! ایران پر مسلط کردہ جنگ کے پیش نظر مغربی گیلان بھی صدام کے حملوں کے زد میں آچکا تھا اور وہاں لوگوں کی اچھی صورتِ حال نہیں تھی اور عوام مغربی گیلان کے بیابانوں میں اس طرف اور اس طرف منتشر تھے اور امام (رح) بھی اس موضوع سے ناراض تھے ۔ امام کی یہ پریشانیاں باعث بنی کہ مجھے وہاں روک کر بلاواسطہ حکم دیا ۔ اگلے روز میں کرمانشاہ اور مغربی گیلان کی طرف نکل پڑا تاکہ حالات کاجائزہ لوں۔ امام ایسے موضوعات پرگہری نظر رکھتے تھے اور جو رپورٹز ان تک پہنچتی تھی انھیں غورسے پڑھتے تھے ۔ میری ایک اور ملاقات بھی امام سے تھی جس کی درخواست خود میں نے کی تھی ۔
جماران : وہ ملاقات 15،آذرسنہ 1359(مطابق 6دسمبر1980) کو تھی ؟
جناب میر سلیم : جی،اسی تاریخ میں امام (رح) کی خدمت میں حاضرہوا اوران سے جنگ زدہ لوگوں کے لئے ملاقات کی اجازت چاہا،جب یہ جنگ زدہ عوام ملک کے مختلف کونوں میں قیام پذیر ہوئے،ان کی بنیادی ضروریات پوری اورسہولتیں فراہم کی گئی ۔ اس دوران جو صبر اور حوصلہ کا مظاہر ہ انھوں کیا خودیہ ہی لوگ صدام کے مقابلہ میں ایک لشکر کی مانند جم گئے، جب امام (رح) ان جنگ زدوں کے سامنے خطاب کے لئے آئے اسی بات کی طرف اشارہ کیا کہ آج یہ جنگ زدہ عوام صدام کے سامنے ایک بہت بڑا لشکر میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ (جماران :صحیفہ امام،ج15،آذر3،1360)