حسن آقا بہت اچھی صلاحیتیں رکھتے  اور ان کی قابلیتیں امام جیسی ہیں

حسن آقا بہت اچھی صلاحیتیں رکھتے اور ان کی قابلیتیں امام جیسی ہیں

جس گھڑی امام (رح) نے اپنی تحریك كا آغاز کیا اور اس وقت تک کہ آپ دنیا سے رحلت كر گئے ہم امام(رح) کے پر اعتمادترین افراد میں سے تھے ۔ امام (رح) اپنی تاریخ میں جتنا اعتماد ہم پر رکھتے تھے شاید کسی اور پرکرتے تھے

ہفتہ تامہ ’’ طلوع صبح ‘‘ کی آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی سے گفتگو کاخلاصہ:

كیا حضرت عالی نے آیت الله سید حسن خمینی كو سیاست میں آنے اور خاص كر مستقبل میں مجلس خبرگان كے لئے نامزد هونے كی سفارش كی هے؟

حاج حسن آقاحقیقتاً اونچی صلا حیتوں اور بڑی ذ مه داریاں ركهتےهیں ۔ آپ ایسے مقام پرفائزهیں كه ملك كےمستقبل كےبارے میں لاتعلق نهیں ره سكیں۔  لیكن اپنا فرض وه خود بهتر جانتے هیں ۔

جناب عالی انهیں سیاست كے میدان میں وارد هونے كی ترغیب دیتے هیں ؟

هم ان پر كوئی فرض نهیں ڈال سكتے۔ لیكن میں اپنی رائے بیان كرتا هوں كه زیاده بهتر هے كه وه اس میں میدان میں وارد هوں ۔ معلوم نهیں كه ہم كب تك ہیں ۔ آج ان كی باری ہے اور انهیں چاہیئے كه آئیں اور انقلاب كی حفاظت كریں ۔

جب سے  آپ نے ’’ علامه ‘‘ كالقب آقاسید حسن كےلئے استعمال كیاہے،بعض مطبوعات نے اس كے خلاف  عكس العمل دیكهایا ہے ۔ ان مخالفتوں كے بار ے میں آپ كیاكهتے ہیں ؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ کلمہ"علامہ" کے معنی کیاہیں ۔ علامہ یعنی وہ شخص جو بہت زیادہ جانتا ہے اور حسن آقابہت زیادہ جانتے ہیں اور بہت اچھی صلاحیتیں رکھتے ہیں اور امام (رح) کی قابلیتیں ان میں ہیں نظرآتیں ہیں اورجدو جہد کے عادی ہیں۔ قم میں درس خارج دیتے ہیں اوران کے بڑ ے اچھے شاگرد ہیں ۔ کوئی چھوٹا انسان نہیں ہیں کہ'' علامہ" کاکلمہ ان کے لئے زیادہ ہو ۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ لوگ ''علامہ "سے کیا معنی اوردرک کرتے ہیں کہ اس قدربے چین دیکھائی دیتے ہیں۔  

جس وقت انقلاب کامیاب اور مجھ پرقاتلانہ حملہ ہوا تھا، میں نے پہلی بارکسی روزنامہ میں دیکھا کہ میر ے لئے " آیت اللہ " لکھاہے ۔ میں نے اعلان کیاکہ مجھے یہ لقب پسند نہیں۔ تم لوگ چاہتے ہو مجھے اوپر اور  آیات کو گراو ۔ آیت اللہ ملک کے بہت ہی ممتاز اور اعلی علمی مقام رکھنے والے انسانوں کے متعلق ہے ۔

گذشتہ دنوں کچھ نے کہا: بعض کی كوشش هے کہ امام (رح) کو جس طرح چاہتے ہیں دیکھائیں کریں اور اس سلسله میں طنز و کنایہ استعمال کرتے ہیں، اس بار ے میں آپ کی رائے کیاہے ؟

اگروہ لوگ امام(رح) کا تعارف کرناچاہتے ہیں جو حساس لمحات میں بھی امام(رح) کی خدمت میں تھے ۔ جس گھڑی امام (رح) نے اپنی تحریك كا آغاز کیا اوراس وقت تک کہ آپ دنیا سے رحلت كر گئےامام(رح) کے پر اعتمادترین افراد میں سے تھے ۔امام (رح) اپنی تاریخ میں جتنا اعتماد ہم پررکھتے تھے شایدہی کسی اور پرکرتے تھے ۔ ہم امام (رح) کی شخصیت کا جس طرح ہے تعارف کرنا چاہتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے امام (رح) کو درک کیا۔ ان لوگوں کو سوچنا چاہیے جنھوں نے آپ کو در ک نہیں کیا اور کل تک کہتے تھے کہ جو خون بهائے گئے ان کا جواب کون د ے گا ؟ اور طاغوت كے ساتھ مقابلہ کرنے كو حرام جانتے تھے !! یهی لوگ آج انقلابی بن رہے ہیں ۔

بعض کا کہنا ہے کہ گذشتہ چندسالوں میں آپ كافی بدل چكے ہیں،کیا آپ اس کو مانتے ہیں ؟

نہیں،انقلاب سے پہلے جس وقت مقابلہ اورجدوجہد شروع ہوا،میر ے سیاسی افکار منظم اور پخته ہوئے۔ یہ نظریات اور افکار تقلیدی اور حادثاتی نہیں تھے، بلکہ میں نے مطالعہ کیا، قرآن پڑھا، اسناد کودیکھا،حالات كا جائزه لیا اور تاریخ پڑھا اور آج وہی شکل محفوظ ہے ۔   

بعض انتہاپسندا فراد جو ہمار ے ساتھ خاص مسائل رکھتے تھے،انھوں نے تخریب کاری شروع کی۔

میر ے تفکرات اور نظریات آج سے50 سال قبل کے ہیں اور آج بھی محفوظ اور راسخ ہیں ۔ البتہ زمانے کے تناسب سے اصلاح ہوتے رہتے ہیں ۔

میں،ہمیشہ حق کے لئے بولتاہوں اورجو کچھ سمجھتاہوں وہی بولتاہوں ۔ البتہ بعض مطالب خاص وقت كے ساتھ اختصاص ركهتے ہیں اور زمانہ بھی بدل چکاہے ۔

ہمارا اصول کہتاہے : " جس کا آج اور كل برابر ہو وہ خسار ے میں ہے " ہمیں ہر روز اپنی اصلاح کرنا چاہیئے ۔میں اعتقادی حوالے سے،اعتدال کو مانتاہوں۔  میری رائے ہے کہ اسلام کا مقدس دین اور خاص کر تشیع کی بنیاد اعتدال پر ہے۔  اہل تشیع کے پاس پانچ اصول دین ہیں جس میں سے ایک عدل ہے ۔ یہ عدل یعنی اعتدال۔ یہ عدل جبراور تفویض (ہرامرکا اختیار) کے مقابلہ میں اعتدال كے معنی كا حامل ہے۔ شیعہ نے درمیانی راہ عمل اور حکمت علمی کو قبول کیاہے، جس وقت ہم نے نہ جبر اورنہ تفویض کو چهوڑا عدلیہ کہنے لگےاوریہی اعتدال ہے۔ ہمار ے مذہب کی اساس اور خاص کر اسلام اور قرآن کی بنیاد اور منطق اعتدال پر چلناہے اور اخلاق کی بحث میں اعتدال ایک بنیادی اورمرکزی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے ۔

ای میل کریں