ہم ایک ایسے دن اس غریب خانے میں مجتمع ہیں کہ جب تمام اسلامی ممالک سے مسلمانوں کا ایک جم غفیر مکہ معظمہ میں جمع ہے۔ یہ ایک دینی اور سیاسی اجتماع ہے۔ اسلام ایک عبادی اور سیاسی دین ہے کہ جس کے سیاسی امور میں عبادت داخل ہے اور عبادی امور میں سیاست داخل ہے۔
یہ اجتماع کہ جسے اسلام نے مسلمانوں کی سہولت کیلئے مہیا کیا ہے، ہر سال میں ایک مرتبہ اس کا انعقاد واجب ہے۔ یہ ان لوگوں پر واجب قرار دیا گیا ہے کہ جو مکہ معظمہ اور مقامات مقدسہ میں جمع ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔ تمام مسلمانوں کیلئے اگرچہ وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں مستحب قرار دیا گیا ہے کہ وہ اس عبادت الٰہی کو بجا لائیں ۔ ان اجتماعات کا اہم مقصد یہ ہے کہ مسلمان مل کر ایک ایسی فضا میں کہ جہاں تکلفات نہ ہوں ، جہاں پر شخصی اور انفرادی پہلوؤں کو نظرانداز کر کے ایک کفن اور دو مختصر چادروں کے ساتھ ان مقامات پر حاضر ہوں اور اہم بات یہ ہے کہ مسلم ممالک میں جو حوادث اور واقعات سال بھر میں رونما ہوتے ہیں ، انہیں ایک دوسرے تک پہنچائیں ۔ مسلمانوں کے مسائل کے حل کیلئے فکر کریں ۔ حجا ز میں لاکھوں کا عظیم اسلامی اجتماع اسی مقصد کی خاطر ہے۔ جبکہ یہ عبادت بھی ہے۔ افسوس ہم مسلمان کہ جو اسلام اور اسلامی حقائق سے دور ہوگئے ہیں ۔ اصلاً اس کی فکر نہیں کرتے کہ سب سے پہلے یہ کہ جو لوگ حج پر جاسکتے ہیں ، وہ جائیں اور خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوں وہ لوگ جو صاحبان فکر ودانش، مصنفین، روشن فکر اور عالم ہیں ، اس فضا میں اکھٹے ہوں ، ساری دنیا کے مسلمانوں کی مشکلات کا جائزہ لیں اور جو کچھ حل کرسکتے ہیں ، حل کریں ۔
اب صرف عام لوگ ہی حج بیت اﷲ سے مشرف ہوتے ہیں ، حکومتوں کے ذمہ دار افراد اور بزرگان قوم کہ جو موثر شخصیات ہیں اور وہاں پر جمع ہو کر اسلام ومسلمین کے سیاسی واجتماعی مسائل کا جائزہ لے سکتے ہیں ، افسوس کہ وہ اس بات سے غافل ہیں ۔ وہاں پر مشکلات کا جائزہ لینے کے بجائے کے بجائے اس میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کو طاق نسیان کردیا ہے۔ وہ دوسروں کے زیر پرچم چلے گئے ہیں ۔ ہم مسلمان اگر قرآن کریم کی صرف اس ایک آیت {واعتصموا بحبل اﷲ جمیعاً ولا تفرقوا} پر عمل پیرا ہو تو تمام سیاسی، اجتماعی، اقتصادی اور دیگر مشکلات، کسی غیر کی مدد کے بغیر، رفع ہوسکتی ہیں ۔
(صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۲۷۴)