قرآن کریم فیض الہی اور کرم ربانی کا سرچشمہ ہے۔ اس میں غور و خوض کرو، تدبر اور تفکر کرو اگرچہ صرف اس کے پڑھنے کی بات ہو کیونکہ یہ محبوب کا خط ہے اور محبوب سننے والوں کے دلپذیر آثار رکھتا ہے۔ دلوں کو سکون بخشتا ہے۔ لیکن اس میں غور و خوض انسان کو بلندترین مقامات اور اعلی درجات تک پہونچاتا ہے اور ان مقامات کی جانب ہدایت کرتا ہے۔ جب تک دلوں پر لگے تالے کھل نہیں جاتے اس وقت تک اس کا نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔ خداوند عالم عظیم قسم کے بعد فرماتا ہے: "انہ لقرآن کریم... کتاب مکنون؛ میں یہ قرآن کریم ہے اسے صرف پاکیزہ ہستیاں ہی مس کرسکتی ہے اس زنجیر کا سرا وہ لوگ ہیں جن کی شان میں آیہ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ (صحیفہ امام، ج 18، ص 446)
ماہ مبارک رمضان، نزول قرآن اور رحمت و مغفرت، برکت و سعادت، توبہ و انابت کا مہینہ ہے۔ اس عظیم اور برکتوں سے بھرے مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت ہمیشہ مسلمانوں بالخصوص شیعوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے، کیونکہ روایات میں قرآن پڑھنے کے علاوہ اس ماہ میں آثار، برکتوں اور عظیم ثواب کو بھی بیان کیا گیا ہے۔بعض اکابر منجملہ حضرت امام اس ماہ میں چند بار قرآن ختم کرنے کے پابند تھے کیونکہ ان کے نتائج سے بخوبی واقف تھے، لیکن جس بات پر ہمیشہ تاکید کرتے تھے۔ یہ تھی کہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس میں غور و فکر اور تدبر و تامل کرکے نتیجہ بھی نکالا جائے جب قرآن کی تلاوت ہوتی تو ہم خود کو ان کی آیات سے سازگار بنائیں اور جو کچھ بیان کرتا ہے اس کے بارے میں تفکر کریں۔ امام خمینی فرماتے ہیں جو قرآن کریم سے بھرپور فیض حاصل کرنا چاہتا ہے وہ آیات قرآنی کو اپنے آپ سے مطابقت دے۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے: مومنین صرف وہی ہیں جب اللہ کا ذکر ہو تو ان کے قلوب روشن ہوجائیں اور جب ان کے سامنے آیات الہی کی تلاوت ہوتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ لوگ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس راہ کے سالک افراد ان تینوں صفتوں پر غور کریں کہ کیا یہ ان پر صادق ہیں؟ کیا ذکر الہی سے ان کے دل خوفزدہ ہوتے ہیں، کیا آیات الہی کی تلاوت سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کا خداوند عالم پر اعتماد اور بھروسہ ہے؟ یا ان مراتب میں سے ہر ایک مرتبہ اور اس کی خاصیتوں سے محروم ہیں۔ خداوند عالم ہم سب کو فہم قرآن کی توفیق عطا کرے اور نور قرآن سے ہمارے قلوب کو روشن و منور کرے۔