ہر زمانے کو کربلا اور حسین ابن علی کی تلاش رہتی ہے

ہر زمانے کو کربلا اور حسین ابن علی کی تلاش رہتی ہے

کربلا وہ بیداری کی تحریک ہے، جو بہن اور بھائی نے آج سے چودہ سو سال پہلے شروع کی تھی

تحریر: مہر عدنان حیدر

 

کربلا وہ بیداری کی تحریک ہے، جو بہن اور بھائی نے آج سے چودہ سو سال پہلے شروع کی تھی۔ کربلا دراصل قوموں کے اندر مری ہوئی روح کو زندہ کرنے کا نام ہے۔ کربلا اسلام کا روشن چہرہ ہے، جو ہر دور کے فرعون، شمر اور یزید جیسوں کی غلاظت کو صاف کرتا ہے۔ یہ بیداری کی تحریک آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ آج کا باشعور انسان حسینؑ سے غیرت کا درس حاصل کر رہا ہے۔ کربلا وہ واحد جنگ تھی، جس کا مفتوحہ علاقہ مخصوص نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی زندہ ضمیر لوگ موجود ہیں، وہ حسین ابن علی کو اپنا ہادی، رہبر اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ ہم اپنے مضمون کی طرف واپس آتے ہیں کہ ہر عصر یعنی زمانے کو کربلا اور حسین ابن علی کی تلاش رہتی ہے، وہ اس لیے کہ حسین روشن فکر، بے مثال تہذیب اور عالم گیر ثقافت کا بچانے والا ہے۔

اُس وقت جب یزید برسر اقتدار آیا تو اس نے روح اسلام کو مارنے کی بہت کوشش کی، یعنی کہ اسلام  رہے اور اس کی اصل ختم ہو جائے۔ جس کے لیے اس نے عمر سعد، شمر اور سنان ابن انس جیسے لوگ خریدے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو ظاہری طور پر مسلمان تھے، مگر ان کے اندر روح اسلام نہ تھی۔ اس طرح یزید نے پورے معاشرے میں اسلام کی مثالی صورت خراب کرنے کی کوشش شروع کی اور یزید کا اقتدار بھی اس صورت میں قائم رہ سکتا تھا کہ وہ روح دین میں سے روح نکال دے اور کھوکھلا دین اس کے اقتدار میں رکاوٹ نہ ہو، یعنی 61 ہجری میں نماز تھی، مگر روح نماز نہ رہی تھی۔ حج ادا ہو رہا تھا، مگر فقط رسومات کی حد تک اور باقی احکام دین کا بھی یہی حال تھا۔

یہ وہ معاشرہ تھا، جس میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے لہو سے روح دین کو زندہ کیا، یعنی دین کی اس حقیقی شکل کو پھر سے زندہ کیا، جسے حسین کے نانا لیکر آئے تھے، یعنی وہ قومیں جنہوں نے حسین کو مدینے سے جاتا دیکھا تھا، مگر ساتھ نہ دیا اور وہ کوفہ جو خط لکھ کر پیچھے ہٹ گیا تھا، امام کے خون سے بیدار ہوا اور ظالم کے آگے قیام پر آمادہ ہوگیا۔ حسین کے وہ ساتھی جو مقتل حسین میں تو نہ آسکے، مگر انہوں نے توابین کی شکل میں پھر انقلاب حسینی کے نام سے اپنی تحریک شروع کی۔ اسی طرح بعد میں یہ بیداری کی تحریک رواں دواں رہی۔

اگر اسی پس منظر میں آج کے زمانے کی طرف نظر کی جائے تو یہاں بھی سب کچھ ویسا ہی ہے، یعنی نماز ہے، مگر روح نماز نہیں، روزہ ہے تو روح روزہ نہیں۔ حج تو ہے مگر حج ابراہیمی نہیں ہے، یعنی کہ وہ ساری رسومات تو ہیں، مگر ان کے اندر روح نہیں ہے، یعنی سب کچھ ظاہری حد تک تو ٹھیک ہے، مگر اندر سے ہر احکام دین کھوکھلا ہوچکا ہے۔ اس لئے ہر عصر یعنی زمانے کی روح کو زندہ رکھنے کے لئے کربلا اور حسین ابن علی کی ضرورت رہتی ہے۔ بقول شاعر 

یزید آتا رہے گا ہر اک زمانے میں

زمانہ کہتا رہے گا حسین زندہ باد

ای میل کریں