تحریر: مقدر عباس
راہ گیر کے چلتے ہوئے قدم رک گئے۔ رُکنے کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ واعظ کے وہ کلمات تھے، جنہوں نے راہگیر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ واعظ بیان کر رہا تھا ’’جو اسیر تھے، وہ حقیقت میں آزاد تھے اور جو کارندے ان کو قیدی بنا کر لے جا رہے تھے اور جس حاکم کے دربار میں ان قیدیوں کو پیش کرنا تھا، حقیقت میں وہ قیدی تھے۔‘‘ خطاب ایک قافلے کے بارے میں تھا۔ واعظ اس قافلے کو ’’کاروانِ حرّیت‘‘ کا نام دے رہا تھا۔ عصرِ عاشور کو یہ قافلہ ایک بڑے قافلے سے جدا ہوا تھا، جسے واعظ نے کاروانِ شہادت کا نام دیا۔ اُس قافلے کا سردار ایک عاشقِ خدا اور رسول اللہﷺ کی آنکھوں کا نور تھا۔ جسے اُمت نے کچھ اس طرح سے اجرِ رسالت ادا کیا کہ اُسے لبِ فرات بھوک و پیاس کے عالم میں شہید کر دیا۔ اس کے جسد ِاطہر کو پامال کیا۔ خاندانِ عصمت و طہارت کے خیموں کو جلایا اور لوٹا۔ اب یہ قافلہ ایک امام (امام سجادؑ) اور محافظہ ٔامامت (بی بی زینبؑ) کی راہنمائی میں کوفہ و شام کی جانب رواں دواں تھا۔ یہ اسیروں کا نہیں بلکہ ان آزاد ہستیوں کا قافلہ تھا، جنہوں نے اپنے خطبات سے کئی خواہشِ نفس کے اسیروں کو آزاد کروایا۔ واعظ نے یہاں رک کر حقیقی آزادی کی وضاحت کی۔
دین اسلام، انسان کے حقِّ حیات (زندگی) اور حقِّ آزادی کا قائل ہے۔ آزاد اور خود مختار انسان ہی کمال کا راہی بنتا ہے۔ ایسی آزادی جو اسے نفس کی ہر قید سے رہا کر دے۔ وہ خواہشات اور شہوتوں کا اسیر نہ بنے۔ اسے اقدار، مطلوب اور پاکیزہ ہدف سے دنیا کی سرکش طاقتیں نہ جھکا سکیں۔ وہ تنہاء بھی ہو، وہ بے یار و مددگار بھی ہو، زنجیروں میں جکڑا ہوا بھی ہو، لیکن وہ آزاد ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ہوائے نفس کا قیدی نہیں ہوتا، بلکہ دنیا کی محبت کے اسیروں کے بھرے دربار میں حق کی صدا کو بلند کرتا ہے۔ اسے ظالم کے آگے سر جھکانے میں فخر محسوس نہیں ہوتا، وہ سر کٹا کر راضیۃً مرضیہ کی معراج تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ انسانی زندگی کا اصل مقدمہ یہ معنوی آزادی ہے۔ یہی’’ فَکُّ رَقَبَہ‘‘ کا اصل مفہوم ہے، جو انسان کو حقیقی آزادی کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ دین اس آزادی کی طرف راہنمائی فرماتا ہے، جو جسم کے مرنے سے ختم نہیں ہوتی۔ اسے ایسی نورانیت نصیب ہوتی ہے، جو کئی بھٹکے ہوؤں کو صراطِ مستقیم کا راہی بناتی ہے۔
جب یہ آزادی، انسانی روح کو نصیب ہو جائے تو وہ شہوت، جاہ و حشمت، بتوں کی بندگی، ہوائے نفس کی پیروی میں سانس نہیں لیتا بلکہ اسے یہ اسارت نظر آتی ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ جو میرے مَن میں آئے، ہر قید و بند سے اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتا۔ میرا جسم میری مرضی کا قائل نہیں ہوتا بلکہ اس کا پورا وجود عظیم رب کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا ہے اور’’لا معبود سواک‘‘ کی صدا بلند کرتا ہوا نظر آتا ہے، جس کی یہی مناجات ہوتی ہیں ’’کفی بی عزا ان اکون لک عبدًا‘‘۔ یہی وہ ایک سجدہ ہے، جو ہزار سجدوں سے آدمی کو نجات عطا کرتا ہے۔ جو شخص معنوی آزادی سے لیس نہیں ہوتا، وہ ’’قد خاب من دسّٰها"(سوره شمس، آیه 10) کا مصداق قرار پاتا ہے۔ بہت سی آیات و روایات اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ اصل آزادی کون سی ہے اور اصل غلامی کونسی ہے۔؟
قوتِ غضب و قوتِ شہوت، اگر ان کی تربیت عقل سلیم کے سائے میں نہ ہو تو انسانی روح کے لئے زوال کا موجب بنتی ہیں۔ پہلا قدم غلامی کی طرف اس وقت اٹھتا ہے، جب عقل اسیر ہو جاتی ہے اور ہواء نفس امیر بن جاتی ہے: "کم من عقل اسیر تحت هوی امیر" (نهج البلاغه، حکمت 211)۔ مولا علی (علیہ السلام ) نہج البلاغہ میں یوں فرماتے ہیں: "الدنیا دار ممر لا دار مقر والناس فیها رجلان: رجل باع فیها نفسه فاوبقها ورجل ابتاع نفسه فاعتقها"(نهج البلاغه،حکمت 133)؛ "دنیا ایک گذرگاہ ہے، نہ کہ ٹھہرنے کا مقام، اس میں رہنے والے انسان دو طرح کے ہیں۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے، جو اپنی جان کو ہوا و ہوس کے ہاتھوں بیچ ڈالتے ہیں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور کچھ وہ لوگ ہیں، جو ہوا و ہوس سے اپنی جانوں کو خرید لیتے ہیں، یہی لوگ حقیقت میں آزاد ہیں۔"
جدید دور میں غلامی کا تصور
ایک جاہلیت اور غلامی اُس زمانے کی تھی، جب بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ جب حق کے پیغمبرﷺ کی بات کو سننے سے منع کیا جاتا تھا۔ لوگوں کے کانوں میں روئی ٹھونسی جاتی تھی کہ حق بات ان تک نہ پہنچ سکے۔ آج کی ماڈرن جاہلیت اور غلامی یہ ہے کہ قوموں کے وسائل کو لوٹنے والے، خود ایٹمی توانائی کو غلط استعمال کرکے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو خاک کا ڈھیر بنا دیتے ہیں، لیکن جب اسی ٹیکنالوجی کو کوئی انسانیت کی بھلائی کے لئے استعمال کرے تو اس پر اقتصادی پابندیاں ٹھونسی جاتی ہیں۔ پھر ہر ملک کو دھمکایا جاتا ہے کہ خبردار! جو اس ملک سے کوئی معاہدہ کیا تو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نہ اس سے گیس لو، نہ تیل اور نہ ہی آزادانہ تجارت۔ یہ غلامی اس طوق و زنجیر کی غلامی سے بدتر ہے۔ اس میں فکریں قید ہیں، عقاید و نظریات پابندِ سلاسل ہیں۔ اس میں ہدایت کا مرکز خانہ ٔخدا نہیں بلکہ وائٹ ہاؤس ہے۔ کھیل وہی ہے، بس چہرے بدل گئے ہیں۔ یہ ہے ماڈرن جہالت اور جدید اسارت۔
کاروانِ حریت نے دنیا والوں کو پیغام دیا کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی جابر و ظالم تم سے تمہارا حق چھین لے، تمہیں تمہاری سرزمین سے بے دخل کر دے۔ لیکن جو حقیقی حرُ ہوتا ہے، وہ کبھی حالات کے قدموں میں نہیں جھکتا بلکہ ابنِ زیاد و یزید جیسے فاسق کے دربار میں، اُس کے بیان ببانگ ِدہل گونجتے ہیں۔ اے یزید! تو جتنی چالیں چل سکتا ہے چل لے، جو کوششیں کرسکتا ہے کرلے، لیکن خدا کی قسم! نہ تو ہمارے ذکر کو مٹا سکو گے اور نہ ہی ہماری یاد کو دلوں سے محو کر سکو گے۔ قیدی وہ نہیں تھے، جنہیں پابند رسن کیا گیا تھا۔ وہ آزاد تھے، کیونکہ ان کے ضمیر آزاد تھے۔ دل آزاد تھے، افکار و اعمال آزاد تھے۔ درحقیقت قیدی تو وہ تھے، جنہوں نے ان آزاد فکر ہستیوں کو پابندِ سلاسل کیا ہوا تھا، کیونکہ وہ ہوائے نفس کے قیدی تھے، شیطان کے قیدی تھے، نفسِ امارہ کے قیدی تھے۔ مقام، منصب اور لالچ کی قید میں تھے۔ حکومت اور عہدے کی قید میں تھے۔
آج بھی جب کشمیر و یمن اور فلسطین کے مظلوموں (جو نہتے ہو کر بھی ظالم کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں) کو دیکھتے ہیں اور ان عرب اور خائن شاہوں کو دیکھتے ہیں کہ جو ظالموں کو ایوارڈ سے نوازتے اور اپنی غلامی کے معاہدے کرتے ہیں۔ جب ایک ویل چیئر پر معذور شخص ظالم صیہونیوں پر پتھر برسا رہا ہوتا ہے اور عرب حکمران ہاتھوں میں تلوار لئے رقص کر رہے ہوتے ہیں تو یہ دو تصویریں ہمیں بتا رہی ہوتی ہیں کہ حقیقی آزاد کون ہے اور اصلی قیدی کون۔؟