تحریر: سویرا بتول
جنابِ سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کے ایام کو ایامِ فاطمیہ کہا جاتا ہے اور یہ ایام بہت سی نسبتوں کی بنإ پر نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ام الشہداء جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی عنایات ہر خاص و عام کے لیے یکساں ہیں۔ یہ اس در کا لطف و کرم ہے کہ یہاں کوٸی بھی سوالی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ شہداٸے اسلام اور شہداٸے مدافعینِ حرم کو جنابِ زہراء سلام اللہ علیہا سے خاص قسم کا انس اور عقیدت حاصل ہے، پھر چاہے وہ شہید ابراہیم ہادی ہوں، شہید حاج قاسم یا شہید ابراہیم ہمت وغیرہ۔ شہید عبدالحسین برونسی کی داستان سب اہل فکر افراد کے لیے قابلِ مطالعہ ہے۔ شہید عبدالحسین برونسی کو جناب زہراء سلام اللہ علیہا سے ایک خاص قسم کی عقیدت تھی۔
شہید کی ہمسر نقل کرتی ہیں کہ ایک بار شہید بہت دیر سے گھر آئے، رات کو سب سوٸے ہوٸے تھے کہ کسی کی آواز آنے لگی، میں نے غور کیا تو شہید کی آواز تھی۔ وہ خواب میں کسی سے بات کر رہے تھے اور بول رہے تھے "یا زہراء"۔ میں نے اُن کو جگانے کے لیے تین چار بار آواز دی، لیکن وہ بیدار نہیں ہوٸے، وہ اپنے حال و احوال میں مصروف تھے۔ میں نے شہید کو بیدار کیا، لیکن وہ بہت ناراض ہوٸے اور دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ دیکھا کہ شہید دو زانوں پر بیٹھے ہیں اور حضرت زہراء کو آواز دی اور شدت سے گریہ کر رہے تھے۔ جب شہید کو تھوڑا سکون ملا تو کہا: مجھے کیوں نیند سے بیدار کیا؟ میں چاہتا تھا کہ جنابِ زہراء سے اپنی شہادت کی اجازت لے لوں۔ یہ شہداء ہماری طرح عام انسان تھے، مگر اس قدر تذکیہ نفس کیا کہ جناب سیدہ سے اپنی شہادت کی سند وصول کی۔ یہ عام بات نہیں ہے بلکہ غور طلب موضوع ہے کہ کیسے انسان شب کی تاریکی میں سیدہ سے توسل کرکے اخروی سعادتوں کو یقینی بنا سکتا ہے۔
انسان مراقبہ نفس، مجاہدت اور کوشش سے اُس درجے تک پہنچ سکتا ہے کہ زمین اُس سے کلام کرے۔ شہداء کے معجزات کو سن کر بعض احباب ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں، جبکہ یہ تعجب خیز بات نہیں کہ زمین انسان سے کلام کرے۔ انسان کے اندر خالقِ کاٸنات نے کل کاٸنات کو تسخیر کرنے کی صلاحيت رکھی ہے۔ ہمیں تاریخ میں ایک ایسے شہید بھی ملتے ہیں، جو زمین سے ہم کلام ہوا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ انسان تذکیہ نفس کے ذریعے ایسے مقام تک پہنچ سکتا ہے کہ زمین سے باتیں کرسکے، ہوا سے گفتگو کرسکے اور اِن کے جوابات سن سکے۔ کوشش کریں کہ اپنے کسی غلط کام سے خدا کو ناراض نہ کر بیٹھیں۔ عاشقانِ خدا اس قدر فنا فی اللہ ہوگئے کہ اپنی شہادت کی تاریخ سے بھی آگاہ تھے۔ یہ اِس دور کے بوذر اور سلمان ہیں، جنہوں نے راہ ولایت میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
بعض احباب نالاں نظر آتے ہیں کہ ہر محفل میں، ہر مجلس میں شہداء کا ذکر تکرار کے ساتھ کیوں کیا جاتا ہے۔ ایک عزیز ہستی ہم سے یوں فرمانے لگے کہ آپ شہداء اور شہادت کے علاوہ کسی اور موضوع کا انتخاب کیوں نہیں کرتیں؟ تکرار کے ساتھ شہادت کا ذکر کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا کسی امام نے شہادت کی اس قدر آرزو کی، جو آپ لوگ ہر وقت شہادت کے ترانے پڑھتے اور خود کو انقلابی ثابت کرتے دکھاٸی دیتے ہیں۔ یہ سوالات یقیناً رنج پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ امام موت و شہادت سے نہیں ڈرتے بلکہ راہِ خدا میں شہادت آٸمہ اطہار علیہم السلام کا فخر ہے۔اصل بات یہ ہے کہ شہادت فخر ہے لیکن مقصد نہیں۔ مقصد اور ہدف صرف اور صرف پروردگار کی اطاعت ہے۔ اگر اِس کی رضا شہادت میں ہے تو وہ فخر ہے اور اگر اُس کی رضا زندہ رہنے میں ہے تو زندگی کو موت سے بچانا ضروری ہے۔ جیسے امام مہدی (عج) کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الہیٰ حکومت برپا کرنے اور ظالموں کو مٹانے کے لیے بھیجا ہے اور یہ کام زندہ رہ کر ہوسکتا ہے، لہذا امام (عج) کے لیے اپنی زندگی کو بچانا ضروری ہے اور غیبت زندگی کی بقإ کا بہترین وسیلہ ہے۔
اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے آٸمہ شہادت کے طلبگار نہ تھے۔ امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہر جنگ کے بعد حسرت سے اپنی شہادت کے لیے دعا کرتے دکھاٸی دیتے ہیں اور مختلف مقامات پر شہداء کے مقام و منزلت کو بیان کرتے دکھاٸی دیتے ہیں(جنکا ذکر ہم اپنی گذشتہ کئی تحاریر میں تفصیلاً کرچکے ہیں)۔ آیئے شہادت کے اسرار و رموز شہیدِ زندگار حاج قاسم سلیمانی سے پوچھتے ہیں۔ چشم تصور میں دیکھا کہ ایک گوشہ میں زندہ شہید حاج قاسم سلیمانی عشاق الشہداء کو شہادت کے حوالے سے نصیحت کرتے دکھاٸی دیتے ہیں، وہ شہادت کا راز یوں بیان کر رہے تھے ”شہادت کی موت دراصل شہادت کی زندگی میں ہے!“ اے شہادت کے مشتاق عزیزو! اگر کوئی (زندگی میں) شہید نہ رہا ہو تو وہ شہادت (کی موت) حاصل نہیں کرتا۔ شہید ہونے کی شرط (زندگی میں) شہید رہنا ہے۔ اگر آپ کسی کو دیکھیں کہ اس کے کلام سے، عمل سے اور اخلاق سے شہید کی بو آرہی ہے تو جان لیں کہ وہ شہید ہوگا۔ ہمارے تمام شہداء اِن خصوصیات کے حامل تھے۔
ابھی شہید قاسم سلیمانی کے جملوں پر غور کر رہی تھی کہ ایک گوشے سے شہید احمد کشوری کی صدا بلند ہوٸی۔ شہید اپنے عزیز رفقاء کو نصیحت کرتے دکھاٸی دیئے۔ آپ فرما رہے تھے کہ اے میرے ساتھیو! کوفی نہ بنیں۔ امام (ولی فقیہ نائب امام عج) کو تنہا نہ چھوڑیں۔ ریلیوں میں پہلے کی نسبت زیادہ شرکت کریں۔دعائے کمیل میں شرکت کریں، اپنی اولاد کو آگاہ کریں اور شوق دلائیں کہ وہ راہ خدا میں فعالیت کریں۔ ہرگز نہ بھولیں کہ شہداء آپ کے کاموں کو دیکھ رہے ہیں۔ شہداء کی باتوں پر عمل پیرا ہو کر شہداء کی قربانی کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
شہید کیا کرتا ہے؟ شہید کی فکر کیا ہے؟ اور کیوں انسان عام موت پر سرخ موت کو ترجیح دے؟ فرض کریں کہ آپ شہید ہوگئے اور امام زمانہ (عج) سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو سب سے پہلے آپ اُن سے کیا کہیں گے؟ اِن سب سوالات کو جاننا نہایت مہم ہے۔ شہادت کو نقصان یا ہلاکت کے معنی میں لینا ایک انحرافی تصور ہے۔ شہادت کا معنی زندہ و جاوید ہے اور شہادت بہترین زندگی ہے۔ جو لوگ دوسروں کی ہدایت کے لیے بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کی سعادت کے عاشق ہوتے ہیں، وہ بجاٸے اِسکے کہ مر جاٸیں، شہید ہوتے ہیں اور یہ شہداء دسرے افراد کو جاوداں قدرت اور سعادت تک پہچانے کے لیے وسیع پیمانے پر مدد کرتے ہیں۔
شہید جیتتا ہے، کٹتا ہے اور ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ شہید خود بھی صاحبِ مقام ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی مقام عطا کرتا ہے۔ شہید خود بھی روشن ہوتا ہے اور دوسروں کے لیے راہِ و راستے کو بھی روشن کر دیتا ہے، کیونکہ شہید کی فکر اور نظریہ تمام انسانيت کی بقاء کا ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہید کا جسدِ خاکی تو خاک میں مل جاتا ہے، مگر شہید کا نظریہ ہمیشہ قاٸم رہتا ہے۔ اپنے لیے ایک شہید کا انتخاب کریں، اُس کے پیچھے جاٸیں، اُسے پہنچانیں، اُس کے ساتھ رابطہ برقرار رکھیں، اُس کی طرح بن جاٸیں، اپنی حاجت اُس سے لیں، آپ بھی شہید ہو جاٸیں گے۔ خدا سے ہر لحظہ دعا کریں کہ خدایا! ہمیں اِن شہداء کے ساتھ، اِن شہداء کے دسترخوان پر، اِن عظیم لوگوں سے فاٸدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرما، جنہوں نے اپنا پورا وجود تیری رضا کے لیے قربان کر دیا۔