تحریر: سویرا بتول
شہید حاج قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر شہید کی شخصيت پر بہت کچھ لکھا گیا۔ شہیدِ زندگار کی فتح و کامرانی کا راز کیا ہے اور شہید نے کیسے شہادت جیسے عظیم مقام کو درک کیا، اِن پہلوٶں کا جاننا نہایت مہم ہے۔ آٸیے شہید کی زبانی اس عظیم فتح کا راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ شہداء اسلام کو جنابِ فاطمہ زہراء سلام اللہ علہہا سے ایک خاص قسم کا انس اور عقیدت حاصل تھی۔ تمام شہداء زندگی کے ہر پہلو میں مادرِ حقیقی جنابِ زہراء سلام اللہ علیہا سے متمسک نظر آتے ہیں۔ شہید حاج قاسم سلیمانی اپنی اکثر تقاریر میں جنابِ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی مادرانہ شفقت کا ذکر کرتے دکھاٸی دیتے ہیں۔
شہید اپنی ایک تقریر میں کہتے ہیں کہ میں نے بارہا دفعہ جنابِ زہراء سلام اللہ علیہا کی مادرانہ شفقت کو دیکھا ہے۔ ہمارے ہاں امیر المومنین مولاٸے متقیان علی ابن ابی طالب علیہم السلام سے روایت ہے کہ جب ہم مشکل میں ہوتے تھے، ہمیں سختیوں کا سامنا ہوتا تھا اور یہ سختیاں طاقت فرسا ثابت ہوتی تھیں تو ہم پیغمبرِ اسلامﷺ کی مدد لیتے تھے۔ میں قاسم سلیمانی آپ سب کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میدانِ جنگ میں، سختیوں کے دور میں، جب ہر طرف مایوسی اور نامیدی ہمیں گھیر لیتی، تب ہمارا واحد سہارا رسولِ خداﷺ کی لختِ جگر جنابِ زہراء سلام اللہ علیہا ہوتیں۔ ہم بی بی زہراء سے مدد مانگتے اور سیدہ (س) کا دستِ شفقت ہمارے سروں پر ہوتا۔
والفجر8 فوجی آپریشن کی رات میں، جب ہماری نگاہیں دریاٸے اروند کی طوفانی، خوفناک اور ڈراٶنی نہروں پر پڑیں، ایک لمحے کے لیے ہمیں ڈر لگا تو وہاں ہمارے پاس سواٸے نامِ زہراء کے کوٸی اور آسرا نہ تھا۔ دورانِ جنگ جب بھی ہمیں کٹھن حالات درپیش ہوتے، جب شدید پریشانی میں ہم بے بسی کی کیفیت دیکھتے تو جنابِ زہراء سے توسل کرتے۔ دریائے اروند کے کنارے ہم نے حقیقی مادر جان سے فریاد کی، رضاکاروں کی آنکھوں سے جاری آنسوٶں کے قطروں میں ہم نے اُن کی نورانی جھلک تلاش کی اور یا زہراء کے نعرے سے ہم نے دریاٸے اروند پر قابو پا لیا اور اُسے عبور کیا۔
جب کربلا4 آپریشن کی رات آٸی، جب دشمن نے اپنی کلاشنکوف، ہینڈ گرینڈ اور توپ خانے سے ساحل پر اندھا دھند حملہ کر دیا اور خون کی چھوٹی چھوٹی ندیاں جاری ہوکر دریاٸے اروند کی جانب بہنے لگی تو اُس وقت ہماری ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں۔زبانوں پر سواٸے جنابِ زہراء سلام اللہ علیہا کے اسمِ مبارک کے علاوہ کوٸی نام نہیں تھا۔ اُس لمحے میں نے جنابِ زہراء کی مادرانہ شفقت کو ھور میں دیکھا، نہر ماہی کے قلب میں دیکھا، بارودی سرنگوں سے بھرے میدان میں دیکھا۔ جب آپ ماٸیں وہاں نہیں تھیں اور آپ کے گوشہ جگر خون میں ڈوبے ہوٸے تڑپ رہے تھے، وہاں میں نے ام الشہداء جنابِ زہراء سلام اللہ علیہا کو دیکھا۔
فقط حاج قاسم سلیمانی نہیں بلکہ ہر شہید جنابِ زہراء سلام اللہ علیہا سے خاص ارتباط رکھتا ہے اور مادر جان کے لطف و کرم کا گواہ ہے۔ بلاشبہ شہید تاریخ کا روشن چراغ ہے، جو خود تو جل جاتا ہے لیکن دوسروں کی راہیں روشن کر جاتا ہے۔ وہ خصوصيات جو شہید کو دوسروں سے ممتاز بناتی ہیں، وہ یہ ہیں کہ شہید مقدس راہ میں مارا جاتا ہے، وہ جاوداں ہو جاتا ہے اور یہ کہ وہ انسانيت کو نورانیت دے کر جاتا ہے۔ شہید حاج قاسم سلیمانی کے پاکیزہ لہو نے انسانيت کی معراج سے متعارف کروایا اور یہی وجہ ہے کہ آج اشتر زماں ہر دل عزیز ہیں۔ وہ ہستی جو ہمیشہ کیمروں سے گھبرایا کرتی تھی، دنیا طلبی سے خوفزدہ نظر آتی تھی اور شب کی تاریکی میں جنابِ زہراء سے اپنی گمنامی کی سند مانگتی دکھاٸی دیتی ہیں، آج کیسے پوری انسانيت کے قلب میں حکمرانی کر رہی ہیں۔ بلاشبہ یہ ام الشہداء جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے لطف و عنایات کی طرف اشارہ ہے۔