آیت اللہ رمضانی

اسلامی مراکز کی بنیادی ذمہ داری انسان کی حقیقی عظمت کو بیان کرنا ہے/آیت اللہ رمضانی

اتحاد عقل، فقہ اور قرآن کے حکم سے ضروری امر ہے

اسلامی مراکز کی بنیادی ذمہ داری انسان کی حقیقی عظمت کو بیان کرنا ہے/آیت اللہ رمضانی

 

ابنا۔ اہل بیت (ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل جو کہ عالمی کونسل آف چرچز کی دعوت پر یورپ کے دورے پر ہیں، نے برسلز شہر کی "مسجد الرحمن" میں حاضر ہو کر بیلجیم کے شیعہ مراکز کے عہدیداروں سے گفتگو کی۔

آیت اللہ "رضا رمضانی" نے امام باقر علیہ السلام کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "اس حدیث کے مطابق نماز انسان کے خدا سے رابطے کا نام ہے روزہ انسان کے خود سے رابطہ اور زکات انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ رابطے اور ان کی مشکلات کے حل کا نام ہے جبکہ حج بین الاقوامی روابط کی عکاسی کرتا ہے۔ لہذا اگر انسان چاہے ان تمام روابط کو مضبوط بنائے تو اسے ولایت کے رابطے کو مستحکم کرنا چاہیے۔

 

اتحاد عقل، فقہ اور قرآن کے حکم سے ضروری امر ہے

انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "آج پہلے سے زیادہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونے کی ضرورت ہے، کیونکہ اتحاد، عقل، فقہ اور قرآن کے مطابق ایک ضروری امر ہے۔"

بین الادیان گفتگو کی ضرورت کے بارے میں اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے کہا: ادیان کے پیروکاروں کو آپس میں مکالمے اور گفتگو کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ہم سب اور تمام انبیاء علیہم السلام کی ابتداء ایک حقیقت سے ہوئی ہے۔ تمام ادیان کا جوہر ایک حقیقت کی طرف پلٹتا ہے اور وہ انسانی وقار کا تحفظ ہے لہذا تمام اسلامی مراکز کی اصلی ذمہ داری انسان کی حقیقی کرامت اور وقار کو بیان کرنا ہے۔

اسلام میں اخلاقیات کی بحث کے بارے میں انہوں نے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دو تعبیریں ہیں: "محاسن اخلاق" اور "مکارم اخلاق"۔ محاسن اخلاق یا اخلاقی خوبیاں انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت سے متعلق ہیں، اور مکارم اخلاق انسان کی اپنی ذات اور اپنی تربیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کی آیت ’’ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا ‘‘ میں ایک اخلاقی قانون پایا جاتا ہے۔ خدا اس آیت میں کہتا ہے، "ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔" اچھا سلوک نہ صرف مومنین اور مسلمانوں کے ساتھ، بلکہ تمام ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ ہونا چاہیے یہ ایک سنہری قانون ہے۔ نیز امام حسن (ع) کے نام اپنے خط میں امیر المومنین (ع) نے ایک وسیع اخلاقی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرو، اور دوسروں کے لیے وہ پسند نہ کرو جو تمہیں پسند نہیں ہے۔

 

اسلام میں تمام سنہری اصولوں کا وجود

آیت اللہ رمضانی نے مزید کہا: جرمن فلاسفر ہانس کنگ کی عالمی اخلاق کے عنوان سے ایک کتاب ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عالمی اخلاق سنہری اصول ہیں، یہ تمام سنہری اصول اسلام میں موجود ہیں۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہمیں اپنے طرز عمل سے اسلام کو متعارف کرانا ہوگا، کہا: بعض اوقات ہم سینکڑوں گھنٹے تقریریں کرتے ہیں لیکن بعض اوقات ایک اخلاقی عمل سو کتابوں سے زیادہ کام کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت خدیجہ (س) کے مال اور حضرت علی (ع) کی تلوار سے اسلام کو پھیلایا۔ یہ درست ہے کہ ان دو عظیم ہستیوں کے مال و جان نے اسلام کی ترقی میں کافی مدد کی لیکن وہ چیز جو لوگوں کے دین اسلام کی طرف راغب ہونے کا باعث بنی وہ پیغمبر اکرم (ص) کا اخلاق تھا جس نے بہت کم مدت میں لوگوں کو متاثر کیا۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے مزید کہا: اگر ہم عیسائیت کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے تین سو سال بعد یہ مذہب ابھی زندہ ہوا ہے، اس سے پہلے کچھ لوگ پہاڑوں میں چھپ کر عبادت کرتے تھے۔ لیکن پیغمبر اسلام کے زمانے میں مسلمان اپنے مذہب پر فخر کرتے تھے۔

آقائے رمضانی نے "اسلام میں آزادی فکر اور اظہار رائے کے وجود" پر زور دیا اور کہا: "اگر ہم تاریخ کی تمام کتابوں کا مطالعہ کریں تو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کے دس سال کے دوران کوئی خانہ جنگی نہیں ہوئی جبکہ اس شہر میں مختلف ادیان کے لوگ بھی رہتے تھے۔ اسلام کی نگاہ میں ہر انسان عقیدے کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہے۔

انہوں نے اخلاقیات کے بارے میں آیت اللہ جوادی آملی کے نظریہ کے بارے میں بھی کہا: ہمارے استاد علامہ جوادی آملی نے ادب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: "ادب مع النفس" یعنی خود کو تربیت کرنا، "ادب مع الخلق" یعنی دوسروں کے ساتھ رابطہ صحیح ہو اور قرآن کریم اس ادب کا معلم ہے اور "ادب مع اللہ" یعنی خدا کے ساتھ رابطہ درست ہو اور صفات الہی ہمارے اندر پیدا ہوں۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا: مومن کامل کے بارے میں امام رضا علیہ السلام کی حدیث ہے، امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: مومن ایمان کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ اس میں تین خصلتیں نہ ہوں؛ خدا کی ایک خصوصیت جو افراد کے رازوں کی پردہ پوشی ہے، پیغمبر اسلام (ص) کی ایک خصوصیت جو لوگوں کے ساتھ رواداری ہے، خدا کے ولی کی ایک خصوصیت جو مشکلات اور سختیوں کے مقابلے میں صبر ہے۔ جس طرح خدا انسان کے راز کو ظاہر نہیں کرتا اسی طرح ایک مومن کو بھی ہونا چاہیے۔ ہمیں مصیبت میں صبر اور بردباری اختیار کرنی چاہیے۔

 

شیعہ مراکز میں مکتب اہل بیت (ع) کو متعارف کرانے کا سنہری موقع ہے

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ شیعہ مراکز میں مکتب اہل بیت (ع) کو متعارف کرانے کا سنہری موقع ہے، مزید کہا: اگر ہم سب کے پاس ولایت اہل بیت ہے تو ہمیں ایک دوسرے سے دوستی کرنی چاہیے نہ کہ اختلافات؛ یقیناً اختلاف ہمارے یہاں جائز نہیں ہوگا۔ علامہ طباطبائی آیت "جاء الحق و زهق الباطل" کی تفسیر میں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اسلام اگرچہ دین حق ہے، لیکن اس میں اختلافات اور مسائل ہیں، لیکن کفر کی دنیا میں کوئی فرق کیوں نہیں؟ انہوں نے خود ہی جواب دیا کہ چونکہ اسلام کا مواد مکمل اور جامع ہے لیکن مسلمان ایک چیز میں صحیح راستے پر نہیں ہیں اور اس سے اسلامی معاشروں میں انتشار پیدا ہوا ہے۔ لیکن کفر کا مواد باطل ہے، لیکن ایک چیز میں وہ صحیح ہیں، اور وہ ہے اتحاد۔

آیت اللہ رمضانی نے یہ بھی کہا: "اسلام رحمت اور عقلانیت کا دین ہے اور معاشرے کو اہمیت دیتا ہے اور جو کچھ داعش انجام دے رہی ہے، وہ خود کا تخلیق کردہ دین ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"

آخر میں، انہوں نے کہا: "انشاء اللہ، ہم اس فرصت سے خصوصا سائبر اسپیس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کو دنیا میں متعارف کروانے کی کوشش کریں۔

ای میل کریں