خالد ملا: امام خمینی کی سچائی اسلامی انقلاب کی بقا کا راز ہے
اہل بیت (ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل، آیت اللہ "رضا رمضانی"، نے عراقی علماء ایسوسی ایشن کے سربراہ شیخ "خالد عبدالوہاب ملا" سے ملاقات کی۔
آیت اللہ رمضانی نے علمائے کرام کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "مسلمانوں کی تاریخ میں علمائے کرام کا کردار ہر دور میں نمایاں رہا ہے اور آج ، ہمارے بین الاقوامی میدان میں جو شرائط ہیں ان کے پیش نظر بلاشبہ یہ موجودگی انتہائی اہم اور ضروری ہوسکتی ہے۔ "
انہوں نے مزید کہا: ہم نے نجف اشرف میں "بیت امام خمینی(رہ)" میں تقریر کرتے ہوئے سورہ بقرہ کی 143 آیت کی طرف اشارہ کیا جس میں خداوند عالم کا اشارہ ہے: «وَكَذلِكَ جَعَلناكُم أُمَّةً وَسَطًا» اور اس میں علماء کے کردار کی طرف اشارہ ہے۔ علمائے اہل سنت اس آیت کی تفسیر میں امت وسط سے درمیانی امت کو مراد لیتے ہیں نہ وہ امت جو افراط اور انتہاپسندی کا شکار ہو اور نہ وہ امت جو تفریط کا شکار ہو اور پیچھے رہ چکی ہو۔ البتہ علامہ طباطبائی اور ہمارے استاد علامہ جوادی آملی نے علامہ طباطبائی کی پیروی میں، اس آیت کو دوسرے طریقے سے تفسیر کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ امت اسلامیہ امت وسط اور درمیانی امت ہے کہ جو دوسری روایات اور آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جیسا کہ پیغمبر اکرم مخلوق اور خالق کے درمیان واسطہ ہیں، اور وہ وحی کو اللہ سے حاصل کرتے ہیں اور انسانوں تک منتقل کرتے ہیں اسی طرح پیغمبر اکرم کے بعد آپ اور مخلوق کے درمیان علماء واسطہ ہیں۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا: درمیانی امت وہی علماء ہیں جو خداوند عالم اور مخلوق کے درمیان واسطے کا کردار ادا کرتے ہیں، اس آیت «وَكَذلِكَ جَعَلناكُم أُمَّةً وَسَطًا لِتَكونوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ» کی بنیاد پر علماء اس علم کو حاصل کرتے ہیں اور وہ لوگوں پر گواہ ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم ان پر گواہ ہیں «وَيَكونَ الرَّسولُ عَلَيكُم شَهيدًا». ۔ مرحوم علامہ طباطبائی نے فرمایا کہ اس آیت میں گواہ سے مراد اسوہ اور نمونہ ہے۔ علماء اسلامی معاشرے کے لیے اسوہ اور الگو کا کام کر رہے ہیں اور وہ انبیائے الہی کے حقیقی وارث ہیں۔
آیت اللہ رمضانی نے اسلام کو متعارف کرانے کے موقع کا ذکر کرتے ہوئے کہا: " آج اسلام کو متعارف کرانے کا ایک سنہری موقع ہے کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ شہید مدرس نے کہا تھا کہ ہمارا مذہب ہی ہماری سیاست ہے اور ہماری سیاست بھی بعینہ ہمارا مذہب ہے ، لیکن آیت اللہ جوادی آملی نے اپنے اس تجزیے میں کہا کہ امام خمینی (رہ) کے افکار میں یوں آیا ہے کہ ہماری شریعت وہی ہماری سیاست ہے اور ہماری سیاست وہی ہماری شریعت ہے، ہماری طریقت عین سیاست اور ہماری سیاست عین طریقت ہے۔
علمائے عراق ایسوسی ایشن کے صدر شیخ خالد عبد الوہاب الملا نے اس ملاقات میں کہا: علمائے عراق ایسوسی ایشن عراق میں پہلی تنظیم تھی جس نے اسلامی وحدت اور دینی امور کا کام شروع کیا یہ وہ تنظیم ہے جو شروع سے امام خمینی (رہ) اور شیخ احمد یاسین کی حمایت کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: امام خمینی (رہ) انقلاب اسلامی کی فتح سے پہلے بھی اسلام اور مسلمانوں کے محافظ تھے، لیکن اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اگر چہ انہیں تمام تر سہولیات فراہم تھیں لیکن وہ خدا سے اور قریب ہوئے اور دنیا کی طرف رغبت اختیار نہیں کی۔ اس انقلاب کی کامیابی اور اس کے بقا کا راز ہی یہ تھا کہ امام خمینی اللہ کے نزدیک سچے تھے۔
عراقی علماء ایسوسی ایشن کے سربراہ نے مزید کہا: "عراق میں ائمہ معصومین (ع) کے مزارات، مراجع اور علمائے کرام کے باوجود، میں اس ملک میں اسلام کے مستقبل کے حوالے سے بہت فکرمند ہوں۔ ہمیں عراق میں اسلام مخالف جماعتیں نظر آتی ہیں، جس کی تائید امریکہ اور اسرائیل نے کی ہے۔ یہ وہی بہاؤ ہے جو ہمارے نوجوانوں کو مذہب سے دور کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ صدام کی حکومت کے وقت مسلمان علماء کو پھانسی دی گئی ، اور ہم، علماء کو اس حکومت کے خاتمے کے بعد رہا کیا گیا، اور عراق میں مرجعیت کے فتویٰ نے عراق کو محفوظ کر لیا۔ لیکن اب ہم عراق میں انحرافات کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اور اس ملک میں کچھ اسکالرز سیکولر فکر کی طرف جا رہے ہیں اور اس صورتحال میں اس گروہ کا کہنا ہے کہ مذہب کو سیاست سے الگ ہونا چاہئے۔
شیخ خالد عبدالوہاب الملا نے دینی اداروں کی سرگرمیوں کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا: "ہمیں ایران میں سرگرم مذہبی اداروں ، جیسے اہل بیت (ع) عالمی اسمبلی اور مجمع جہانی تقریب مذاہب سے اپنا تعاون بڑھانا چاہیے تاکہ عراق میں مذہبی تحریکیں متحرک ہوں ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ ایک عالم دین کو اپنا آئیڈیل بنائیں نہ کہ دوسروں کے نقش قدم پر چلیں۔
انہوں نے مزید کہا: "امریکہ اور اسرائیل ہمارے مذہب اور مذہبی جماعتوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عراق میں کچھ لوگوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کی ہے جس کا اثر ہمارے نوجوانوں پر پڑتا ہے۔ ایسے موجودہ حالات کے پیش نظر، ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا سے قربت حاصل کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی تعاون کریں اور صحیح بات کہنے سے نہ گھبرائیں۔