حوزہ نیوز ایجنسی کے خبر نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے صوبہ کردستان میں اہلسنت عالم دین استاد مولوی مصطفیٰ شیرزادی نے کہا: اسلامی اور جہادی افکار میں تبدیلی اور اس کے ساتھ ساتھ استکبار مخالف جذبے کا خاتمہ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور صیہونی حکومت کا ایک طویل المدتی منصوبہ ہے۔ دشمنوں کی اس سازش کو عالم اسلام میں مختلف طریقوں سے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے کبھی براہ راست فوجی جارحیت کی صورت میں تو کبھی دہشت گرد گروہوں کے ساتھ پراکسی وار کی شکل میں اور کبھی ثقافتی اور میڈیا کی جارحیت کی صورت میں انجام پاتی ہے۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ان سازشوں کے تسلسل اور اسلامی رہنماؤں کی خاموشی سے عالم اسلام کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے، کہا: جب تک اسلامی ممالک میں گروہ بندی اور تفرقہ موجود ہے اس وقت تک مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کی توقع کرنا فضول ہے۔
شہر مریوان کے امام جمعہ نے کہا: جب غاصب اور جعلی صیہونی حکومت اسلامی ممالک میں اپنے سفارت خانے قائم کرتی ہے اور اسلامی رہنماوں کے ساتھ میل جول رکھتی ہے تو مسلمانوں بالخصوص فلسطین کی مظلوم عوام کے لئے امن و آشتی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
اس سنی عالم دین نے امام راحل (رہ) کے افکار کو تحریف کرنے کے لیے بہت سے داخلی اور خارجی عناصر کی مذموم کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: امام خمینی (رہ) کسی ایک گروہ یا ملت کے ساتھ خاص نہیں تھے بلکہ وہ گروہ و ملت سے بڑھ کرہمہ گیر شخصیت تھے اور ان کے آفاقی و جہانی افکار نے عالمی مساوات کو متاثر کیا لہذا اس عظیم اور آزادی پسند رہنما کے افکار کو تحریف کرنے کی کوشش اسلام اور آزادی اسلام پر ناقابل معافی ظلم ہے۔
مریوان کے امام جمعہ نے کہا: جب امام (رہ) کے افکار کو تفسیر بالرای سے بیان کیا جائے گا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اسلامی ممالک کی اتحاد کے لیے تحریک اپنے اصل راستے سے ہٹ جائے گی اور یہی اسلام دشمنوں کی بھی خواہش ہے۔
آخر میں اہلسنت عالم دین مولوی شیرزادی نے موجودہ دور میں عالم اسلام کے اتحاد کے مسئلے پر ایک جامع نظریہ کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا اور کہا: عالم اسلام میں اتحاد و وحدت کا مسئلہ کسی بھی دوسرے مسئلے کے ساتھ معاملہ یا مذاکرہ نہیں کیا جا سکتا ہےکیونکہ حقیقی اسلام کا ادراک صرف اتحاد و وحدت کے ذریعہ ہی ممکن ہو سکتا ہے۔