روزِ اربعین ایک بہن کا وعدہ
تحریر: مہر عدنان حیدر
آج صنف ادب کی تمام اصناف حسین ؑ کو خراج تحسین پیش کر رہی ہیں۔ آج دنیا کا ہر باشعور شاعر، ادیب، مورخ اور مدبر رزق شعور کی خاطر مدحت اہل بیت میں فخر محسوس کر رہا ہے۔ اس بات میں فرق نہیں کہ حسین کا ذکر فقط مسلمان ہی کر رہے ہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ حسین کا ذکر انسان کر رہے ہیں۔ بقول جوش ملیح آبادی
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
گویا انسان وہی ہے، جس کے دل میں درد ہے اور جو کائنات میں درد، دکھ اور تکلیف کا مرکز ہے، وہ حسین ؑ ہے ۔ ہر غم زدہ، ہر درد زدہ اپنے غموں اور دکھوں سے نجات کے لئے ذکر حسین کر رہا ہے۔ حسین فقط نجات غم ہی نہیں بلکہ ہر روح انسان کی حیات بھی ہے اور بے آسرا لوگوں کے لئے کائنات بھی ہے۔ گویا جو شخص بھی بااصول زندگی جینا چاہتا ہے، وہ کربلا کی طرف آتا ہے اور حسین علیہ السلام بشر کو با اصول زندگی جینے کا سلیقہ بتاتے ہیں۔
آج دنیا کے تمام مظلوم کربلا کو ہی اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ہر مظلوم حسین پر ہونے والے ظلم پر نوحہ کناں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کربلا کے وقوع ہونے بعد کائنات میں عالم گیر اور آفاقی حقیقت کا اضافہ ہوا، یعنی کربلا ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں دنیا کے ظلم، جبر اور بربریت کا تاریک سورج غروب ہوا اور اس کے بعد زمانے نے حسین کے نور سے روشنی لے لی۔ کربلا آج بھی عالم انسانیت کے ہر ذرے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کو جو چاہیئے، وہ کربلا میں موجود ہے۔ حسینؑ ہر زندہ ضمیر کو اپنی جانب بلا رہا ہے اور ہر زندہ ضمیر حسینؑ کے جانب آرہا ہے۔ آج کے دن کی مناسبت کہ آج روز اربعین ہے، روز اربعین دراصل ایک بہن کا وعدہ تھا، جو بھائی کو مقتل میں بے کفن چھوڑ کر شام قید ہو کر چلی گئی۔ بقول شاعر
علی کی بیٹی علی بن گئی حسین کے بعد
نبی کے گھر کوئی قحط الرجال تھوڑی ہے
آج روز فتح زینب عالیہ سلام اللہ علیہ ہے۔ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ لاشے جو بریدہ بدن اور گھوڑوں کے سموں سے پامال تھے، ایک دن خدا کی توحید کی محکم دلیل بنیں گے۔ خصوصاً وہ بدن جنہیں کفن بھی نہ ملا، وہ ایک دن لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کریں گے۔ آج کا دن اگرچہ فتح کا ہے، مگر یہ دن اہل بیت کے چاہنے والوں کو اہل بیت کے غم کی یاد دلاتا ہے کہ کس طرح ایک بہن اپنے پیاسے بھائی کو مقتل میں بے کفن چھوڑ کر بھائی کے مشن کی تکمیل کے لیے شام قید ہو کر چلی گئی اور شام کے ایوانوں میں بھائی کے مقصد کو سچا ثابت کیا اور پھر واپس وہیں آئی، جہاں بھائی کو ذبح ہوتے دیکھا تھا۔
میرا دل کہتا ہے کہ حضرت زینب نے بھائی کو یہ ضرور کہا ہوگا کہ "اے میرے حسینؑ بھائی میں تیرا نامکمل مشن مکمل کرکے تیرے بغیر نانا کے شہر مدینہ واپس جا رہی ہوں۔" گویا حضرت زینب کے لیے بھائی کا مقتل چھوڑنا آسان نہ تھا، مگر بہن کی صبر پر دلیل شجاعت ہے کہ اُس نے بھائی کا مقتل چھوڑا اور مدینہ میں ماں کی قبر پر کہا کہ اماں تیرا حسینؑ کربلا میں پیاسا شہید ہوگیا اور میں یہ حسین ابن علیؑ کا خون آلودہ کُرتا لائی ہوں۔