میری یہ زندگی مردہ باد

میری یہ زندگی مردہ باد

میں، سب سے معذرت خواہ ہوں

میری یہ زندگی مردہ باد

 

ملت ایران کا فرض ہے کہ اس (اڑھائی ہزار سالہ جشن) کے خلاف منفی جدوجہد کرے، مثبت نہیں ، ضروری نہیں ؛ جب یہ جشن منایا جا رہا ہو اپنے گھروں  سے ہی باہر نہ نکلیں ۔۔۔ اگر علمائے ایران مل کر احتجاج کریں گے تو کیا سب کو گرفتار کرلیا جائے گا؟۔۔۔ اگر یہ احتجاج کریں  اور خاموشی، جو کہ ان کی رضا شمار کی جاتی ہے، کو توڑ دیں  تو کیا ان سب کو نابود کردیا جائے گا؟ اگر وہ سب کو نابود کرنا چاہتے تو بہتر یہ تھا کہ سب سے پہلے مجھے نابود کرتے لیکن انہوں  نے مجھے نابود نہیں  کیا کیونکہ اسے وہ اپنے مفاد میں نہیں  جانتے تھے۔ کاش یہ ان کے مفاد میں  ہوتا۔ میں  اس زندگی کا کیا کروں گا؟

میری یہ زندگی مردہ باد! وہ یہ خیال کرتے ہیں  کہ میں  اس زندگی سے بہت خوش ہوں  جو مجھے دھمکی دے رہے ہیں ۔ یہ کیا زندگی ہے جو میں  گزار رہا ہوں ! وہ جتنی جلدی آئیں  اتنا ہی اچھا ہے، جتنی جلدی ہو اس قدر اچھا ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۲، ص ۳۶۶)

 

میں، سب سے معذرت خواہ ہوں

 

میں  پندرہ خرداد کے بعد جب قید سے آزاد ہوا اور ایران میں  رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ ہوا اور اس کے بعد، میں  قم آیا اور میری ملاقات ایسے بعض افراد سے ہوئی جو اپنے عزیزوں  سے محروم ہوگئے تھے، مجھے گمان نہیں  تھا کہ اس چیز کا نتیجہ ان مناظر کی صورت میں  نکلے گا جو میں  اب دیکھ رہا ہوں ۔ اس وقت جب پندرہ خرداد کے واقعے، جو کہ ایک عظیم تاریخی واقعہ تھا اور میرے کندھے پر سنگین وزن تھا، کے زخمیوں  اور شہداء کے لواحقین میں  سے بعض سے میری ملاقات ہوئی تو میں  متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

اس وقت مجھے گمان نہیں  تھا کہ پندرہ خرداد کے بعد بھی ایسے مناظر کا سامنا کرنا ہوگا اور ہماری ملاقات ایسے عزیز بھائیوں  اور ایسی قابل احترام بہنوں  سے ہوگی جو اپنے عزیزوں  سے محروم ہوچکی ہوں گی۔ ہمارا سامنا شہداء کے لواحقین، زخمیوں  اور ان کے اہل خانہ سے ہوگا۔ اگرچہ یہ بہت کم ہیں  اور پورے ایران میں  یہ مسائل پائے جاتے ہیں ۔ میں  آپ سے اس بات پر معذرت خواہ ہوں  کہ آپ نے جو مصائب جھیلے ہیں ، یہ مصائب ساری ملت کیلئے تھے۔ ہم ان کا ازالہ نہ تو کرسکے ہیں  اور نہ ہی کرسکتے ہیں ۔ ہم آپ کو تسلی دینے سے قاصر ہیں۔ (صحیفہ امام، ج ۱۲، ص ۴۷۵)

ای میل کریں