انبیاء کی شمشیر، جراحی کا آلہ
انبیاء کی سیاست اس چیز پر قائم تھی کہ کبھی شمشیر کو ہاتھ میں نہ لیں مگر یہ کہ جب معاشرے کو خراب اور آلودہ کرنے والے افراد کا علاج شمشیر کے علاوہ کسی اور چیز سے ممکن نہ ہو۔ وہ تمام لوگ جو معاشرے کی صحیح وسالم اور پاک فضا کو گناہوں سے آلودہ کرتے ہیں اور کبھی بھی اپنی برائیوں سے دستبردار نہیں ہوتے تو ایسے عناصر کو معاشرے سے نکال دینا چاہیے۔ یہ عناصر ایک سرطانی غدود کی مانند ہیں جو ایک معاشرے کے بدن کو خراب کرتے ہیں ۔
انبیاء طبیب کی مانند ہیں جو معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر کوئی طبیب آئے اور جراحی کی چھری سے کسی کے شکم کو کاٹ کر اس کے سرطانی غدّہ کو اس کی جڑوں سمیت باہر نکال دے تو کیا آپ شور بلند کریں گے کہ تم لوگوں کے شکم کو کیوں کاٹتے ہو، کیا تم قاتل ہو؟ نہیں ! بلکہ آپ اس کا احترام کریں گے اور اسے معاوضہ بھی دیں گے اور اس سے بہت زیادہ ادب واحترام سے پیش آئیں گے۔ آپ اس لیے خوشحال ہوتے ہیں کہ اس نے کسی انسان کا شکم چاک کیا اور سرطان کے غدّہ کو باہر نکال کر اسے ہلاکت سے بچالیا۔ انبیاء کی مثال بھی بالکل ایسی ہی ہے۔
خداوند عالم فرماتا ہے کہ ’’کیوں اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتے ہو اور کیوں اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہتے ہوکہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں ‘‘ (سورۂ طہ، آیت؍ ۲ اور سورۂ کہف، آیت؍ ۶) مگر اس کے باوجود وہ اس قدر مہربان اور رحمدل تھے اور ان کا دل اس بات کیلئے تڑپتا تھا کہ لوگ نیک اور اچھے بن جائیں ۔ لیکن جب وہ یہ دیکھتے تھے کہ فلاں گروہ جب تک ہے وہ لوگوں کو برائیوں کی طرف دعوت دیتا رہے گا تو اس وقت شمشیر ہاتھ میں اٹھاتے تھے تاکہ اس فاسد گروہ کا علاج کیا جائے اور ان کی وہی تلوار، طبیب کے آلہ جراحی کی حیثیت اختیار کرلیتی تھی۔ تمام انبیاء معاشرے کیلئے طبیب کا درجہ رکھتے ہیں اور وہ نیک نیتی کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کرتے ہیں ۔ حضرت علی بن ابی طالب ؑ کی تلوار کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ جن وانس کی عبادت سے افضل ہے۔ (بحارالانوار، ج ۳۹، ص ۱، حدیث ۱؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ج ۳، ص ۳۲) اس لیے کہ وہ اصلاح معاشرہ کا عمل انجام دیتی ہے، اس کی ضرب، اصلاحی ضرب ہے نہ کہ برائی وفساد پھیلانے کی ضرب۔
صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۲۰