شھراللہ اور ہماری ذمہ داریاں

شھراللہ اور ہماری ذمہ داریاں

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو شخص اس بابرکت مہینے میں نہیں بخشا گیا تو وہ آیندہ رمضان تک نہیں بخشا جائیگا

شھراللہ اور ہماری ذمہ داریاں

 

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ مبارک رمضان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تمہاری طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آرہا ہے۔ جس میں گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ مہینہ خدا کے ہاں سارے مہینوں سے افضل و بہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے مہینوں کے دنوں سے بہتر، جس کی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر اور جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہتر ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں حق تعالیٰ نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے اور اس مہینے میں خدا نے تمہیں بزرگی والے لوگوں میں قرار دیا ہے کہ اس میں سانس لینا تمہاری تسبیح اور تمہارا سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے۔ اس میں تمہارے اعمال قبول کیے جاتے اور دعائیں منظور کی جاتی ہیں۔ پس تم اچھی نیت اور بری باتوں سے دلوں کے پاک کرنے کے ساتھ اس ماہ میں خدائے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ تم کو اس ماہ کے روزے رکھنے اور اس میں تلاوتِ قرآن کرنے کی توفیق عطا کرے، کیونکہ جو شخص اس بڑائی والے مہینے میں خدا کی طرف سے بخشش سے محروم رہ گیا، وہ بدبخت اور بدانجام ہوگا۔

 

اس مہینے کی بھوک پیاس میں قیامت والی بھوک پیاس کا تصور کرو، اپنے فقیروں اور مسکینوں کو صدقہ دو، بوڑھوں کی تعظیم کرو، چھوٹوں پر رحم کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ نرمی و مہربانی کرو، اپنی زبانوں کو ان باتوں سے بچاؤ کہ جو نہ کہنی چاہئیں، جن چیزوں کا دیکھنا حلال نہیں، ان سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھو، جن چیزوں کا سننا تمہارے لیے روا نہیں، ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو، دوسرے لوگوں کے یتیم بچوں پر رحم کرو ،تاکہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم بچوں پر رحم کریں، اپنے گناہوں سے توبہ کرو، خدا کی طرف رخ کرو، نمازوں کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھاؤ کہ یہ بہترین اوقات ہیں، جن میں حق تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے اور جو بندے اس وقت اس سے مناجات کرتے ہیں، وہ انکو جواب دیتا ہے اور جو بندے اسے پکارتے ہیں، ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے۔

 

 اے لوگو! اس میں شک نہیں کہ تمہاری جانیں گروی پڑی ہیں۔ تم خدا سے مغفرت طلب کرکے ان کو چھڑانے کی کوشش کرو۔ تمہاری کمریں گناہوں کے بوجھ سے دبی ہوئی ہیں، تم زیادہ سجدے کرکے ان کا بوجھ ہلکا کرو، کیونکہ خدا نے اپنی عزت و عظمت کی قسم کھا رکھی ہے کہ اس مہینے میں نمازیں پڑھنے اور سجدے کرنے والوں کو عذاب نہ دے اور قیامت میں ان کو جہنم کی آگ کا خوف نہ دلائے۔ اے لوگو! جو شخص اس ماہ میں کسی مؤمن کا روزہ افطار کرائے تو اسے گناہوں کی بخشش اور ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ آنحضرت کے اصحاب میں سے بعض نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم سب تو اس عمل کی توفیق نہیں رکھتے، تب آپ نے فرمایا کہ تم افطار میں آدھی کھجور یا ایک گھونٹ شربت دے کر بھی خود کو آتشِ جہنم سے بچا سکتے ہو، کیونکہ حق تعالیٰ اس کو بھی پورا اجر دے گا، جو اس سے کچھ زیادہ دینے کی توفیق نہ رکھتا ہو۔

 

 اے لوگو! جو شخص اس مہینے میں اپنا اخلاق درست کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو پل صراط پر سے با آسانی گزار دے گا، جبکہ لوگوں کے پاؤں پھسل رہے ہوں گے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام اور لونڈی سے تھوڑی خدمت لے تو قیامت میں خدا اس کا حساب سہولت کے ساتھ لے گا اور جو شخص اس مہینے میں کسی یتیم کو عزت اور مہربانی کی نظر سے دیکھے تو قیامت میں خدا اس کو احترام کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے نیکی اور اچھائی کا برتاؤ کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملائے رکھے گا اور جو کوئی اپنے قریبی عزیزوں سے بدسلوکی کرے تو خدا روز قیامت اسے اپنے سایہ رحمت سے محروم رکھے گا۔ جو شخص اس مہینے میں سنتی نمازیں بجا لائے تو خدائے تعالیٰ قیامت کے دن اسے دوزخ سے برائت نامہ عطا کرے گا اور جو شخص اس ماہ میں اپنی واجب نمازیں ادا کرے تو حق تعالیٰ اس کے اعمال کا پلڑا بھاری کر دے گا، جبکہ دوسرے لوگوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔

 

جو شخص اس مہینے میں قرآن پاک کی ایک آیت پڑھے تو خداوند کریم اس کے لیے کسی اور مہینے میں ختم قرآن کا ثواب لکھے گا۔ اے لوگو! بے شک اس ماہ میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ انہیں تم پر بند نہ کرے۔ دوزخ کے دروازے اس مہینے میں بند ہیں۔ پس خدائے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر نہ کھولے اور شیطانوں کو اس مہینے میں زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ پس خدا سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر مسلط نہ ہونے دے۔ رمضان مبارک اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور یہ سارے مہینوں سے افضل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے، جس میں جنت اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے، جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔

 

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو شخص اس بابرکت مہینے میں نہیں بخشا گیا تو وہ آیندہ رمضان تک نہیں بخشا جائیگا، سوائے اس کے کہ وہ عرفہ میں حاضر ہو جائے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے وصیت فرمائی ہے کہ جب تم روزہ رکھو تو تمہارے سب اعضاء بھی روزہ دار ہونے چاہیئے، یعنی ان کو حرام بلکہ مکروہ چیزوں اور کاموں سے بچائے رکھو۔ نیز فرمایا کہ تمہارے روزے کا دن عام دنوں کی طرح نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ روزہ صرف کھانے پینے سے اجتناب کرنا نہیں بلکہ حالتِ روزہ میں اپنی زبان کو جھوٹ سے اور آنکھوں کو حرام سے دور رکھو۔ روزے کی حالت میں کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرو، حسد نہ کرو۔ کسی کا گلہ شکوہ نہ کرو اور جھوٹی قسم نہ کھاؤ، بلکہ سچی قسم سے بھی پرہیز کرو، گالیاں نہ دو، ظلم نہ کرو، جہالت کا رویہ نہ اپناؤ۔ بیزاری ظاہر نہ کرو اور یاد خدا اور نماز سے غفلت نہ برتو۔ ہر وہ بات جو نہ کہنی چاہیئے، اس سے خاموشی اختیار کرو، صبر سے کام لو، سچی بات کہو، برے آدمیوں سے الگ رہو۔ بری باتوں، جھوٹ بولنے، بہتان لگانے، لوگوں سے جھگڑنے، گلہ کرنے اور چغلی کرنے جیسی سب چیزوں سے پرہیز کرو۔ اپنے آپ کو آخرت کے قریب جانو۔

 

رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا کہ ایک عورت بحالت روزہ اپنی کنیز کو گالیاں دے رہی ہے تو حضرت نے کھانا منگوایا اور اس عورت سے کہا کہ یہ کھانا کھا لو۔ اس نے عرض کی کہ میں روزے سے ہوں، آنحضرت نے فرمایا کہ یہ کس طرح کا روزہ ہے جبکہ تو نے اپنی کنیز کو گالیاں دی ہیں۔ بنابریں روزہ محض کھانے پینے سے اجتناب کرنے کا نام نہیں بلکہ حق تعالیٰ نے تو روزے کو تمام قبیح کاموں یعنی بدکرداری و بدگفتاری وغیرہ سے محفوظ قرار دیا ہے، پس اصل و حقیقی روزے دار بہت کم اور بھوکے پیاسے رہنے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ جن کے لئے اس میں بھوکا پیاسا رہنے کے سوا کچھ نہیں اور کتنے ہی عبادت گزار ہیں کہ جن کا حصہ ان میں سوائے بدن کی زحمت اور تھکن کے کچھ نہیں ہے۔ کیا کہنا اس عقل مند کی نیند کا جو جاہل کی بیداری سے بہتر ہے اور کیا کہنا اس صاحب فراست کا، جس کا روزے سے نہ ہونا روزداروں سے بہتر ہے۔

 

ماہ مبارک رمضان توبہ اور مغفرت کے لئے بہترین مہینہ ہے، کیونکہ اس مہینہ میں انسان کا خدا سے رابطہ پہلے کی نسبت زیادہ ہو جاتا ہے۔ توبہ ایک لطف الہیٰ ہے جو انسان کے اندر خدا کی طرف واپسی اور اس کی بندگی میں شدت کا باعث بنتا ہے اور انسان کو ناامیدی سے نکال دیتا ہے۔ توبہ رجوع کرنے اور پلٹنے کے معنی میں ہے، یعنی اپنے گناہوں پر پشیمان ہو اور خدا کی طرف رجوع کرے۔ حقیقت توبہ یہ ہے کہ انسان اپنے گذشتہ برے کاموں سے پشیمان ہو، اس کے ساتھ ارادہ کرے کہ وہ ان کاموں کو چھوڑ دے گا اور ان کی طرف دوبارہ پلٹ کر بھی نہیں دیکھے گا۔ علامہ حلی رہ فرماتے ہیں: توبہ یعنی انجام دیئے ہوئے گناہوں پر پشیمان ہونا اور آئندہ ان کاموں کے انجام نہ دینے کا عزم و ارادہ کرنا ہے۔

 

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب بندہ توبہ نصوح کرتا ہے تو خداوند عالم اس سے محبت کرتا ہے اور اس کے گناہوں کو دنیا و آخرت میں چھپا دیتا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوند اپنے بندوں کو اتنی قدرت و مہلت دیتا ہے کہ جو چیزیں خدا کی مخالفت اور نافرمانی میں انجام دی ہیں، ان کو چھوڑ کر دوبارہ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔ آپ توبہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مثال دیتے ہیں کہ جو شخص سفر میں اپنے قافلے سے بچھڑ گیا ہو اور کاروان کو گم کر دیا ہو، رات کی تاریکی میں قافلے کی تلاش کی کوشش کرے اور حالت یہ ہو کہ وہ بھوکا اور پیاسا ہو، خوف کے مارے مارے پھر رہا ہو، لیکن جب ناامید اور مایوس ہو جائے اور اسی وقت کاروان مل جائے تو وہ شخص کتنا خوش ہوگا، جب انسان توبہ و استغفار کرتا ہے  تو خداوند متعال کو اس شخص سے بھی زیادہ خوشی و مسرت ہوتی ہے۔

 

توبہ انسان کے دلوں پر گناہوں کی وجہ سے لگے ہوئے زنگ کو صاف کر دیتی ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر مومن انسان کے دل پر ایک سفید رنگ کا وسیع نقطہ ہے، جو نورانی ہے، جب انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس سفید نقطہ پر ایک کالا نقطہ ابھر آتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے تو سیاہی مٹ جاتی ہے، لیکن اگر توبہ نہ کرے اور گناہون کو بجا لاتا رہے تو سیاہی دن بدن بڑھتی ہے، یہاں تک کہ پوری سفیدی سیاہی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ توبہ کرنے میں دیر کرنے کی صورت میں انسان تین بڑے خطرات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

1۔ اگر انسان توبہ کرنے میں دیر کرے تو موت اس کے گلے لگ سکتی ہے اور اس کو توبہ و استغفار کا وقت میسر نہیں ہوسکتا۔

2۔ انسان توبہ نہ کرے یا توبہ کرنے میں دیر کرے تو گناہوں کے سبب وہ شقاوت اور قساوت کے درجے تک پہنچ جاتا ہے اور جب دلوں پر زنگ کا ڈھیر لگ جائے تو علاج ممکن نہیں۔

3۔ اگر انسان توبہ کرنے میں دیر کرے تو ممکن ہے کہ اس کے اعمال صالح بھی خدا کے ہاں قبول نہ ہوں، چونکہ قرآن کریم میں ارشاد الہیٰ ہے: خداوند متعال فقط متقی افراد کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔

 

حضرت علی علیہ السلام توبہ و استغفار کے لئے کچھ شرائط بیان فرماتے ہیں:

1۔ انسان اپنے گذشتہ انجام دیئے ہوئے برے اعمال ہر اظہار پشیمانی کرے۔

2۔ انسان ارداہ کرے کہ آئندہ ان گناہوں کو انجام نہیں دے گا۔

3۔ اگر اس کی گردن پر کوئی حقوق الناس ہو تو اسے ادا کرے۔

4۔ جن واجبات کو بجا نہ لایا ہو انہیں بجا لائے۔

بنابریں ماہ مبارک رمضان میں انسان کو چاہیئے کہ وہ صحیح معنوں میں خالق کی عبادت بجا لائے اور اس بابرکت مہینے میں مہمان خدا بننے کی کوشش کرے اور اعمال صالح کے ذریعے اپنے درجات کو بلند کرے۔ عظیم ہیں وہ لوگ جنہیں اس بابرکت مہینے میں مہمان خدا بننے اور توبہ و استغفار کرنے کا شرف حاصل ہو جائے اور بدبخت ہیں وہ لوگ جنہیں مہمان خدا بننے کی توفیق حاصل نہ ہو اور یہ مقدس مہینہ بغیر بخشش و عفو کے گزر جائے۔ بنابریں ہمیں اس مقدس مہینے میں توبہ و استغفار کرکے کسب فیض حاصل کرنا چاہیئے اور اس عظیم موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ خدا ہمیں ماہ مبارک رمضان میں عبادت الہیٰ بجا لانے اور توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

ای میل کریں