انسان کی بھوک کبھی نہیں  ختم ہوتی

انسان کی بھوک کبھی نہیں ختم ہوتی

خدا تک پہنچنے سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے

انسان کی بھوک کبھی نہیں  ختم ہوتی

 

یہ انسان اگر اپنے حال پر رہے اور اسے لگام نہ دی جائے تو تمام حیوانات سے بڑھ کر درندہ اور خطرناک ہے۔ ان بڑی طاقتوں  کی طرف سے انسان پہ جو مظالم ہو رہے ہیں ،ان کوآپ دیکھ رہے جو اپنے زعم  میں  تربیت یافتہ لوگ ہیں ۔ یہ مظالم جو ان حکومتوں  کی جانب سے انسان اور اپنے ہم نوع پر ہورہے  ہیں ، پوری تاریخ میں  کسی حیوان اور درندے سے واقع نہیں  ہوئے ہیں ۔ درندے حیوان کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن جب غذا اس کے ہاتھ لگ جاتی ہے اور اس کا پیٹ سیر ہوجاتا ہے توپھر وہ  دوسرے حیوانات کا استثمار نہیں  کرتااور ان پراپنا تسلط قائم نہیں  کرتا۔

یہ فقط انسان ہے جو کبھی سیر نہیں  ہوتا ہے۔ یہ آدمی ہے کہ جس کی خواہشات نفس کی کوئی انتہا نہیں ۔ چنانچہ اگر اسے ایک مملکت دے دی جائے تو دوسری مملکت کے پیچھے لگ جاتا ہے۔اگر دوسری مملکت پر بھی قبضہ کرلے تو ایک اور کی طرف بڑھنے کی سعی کرتاہے۔ ایسا نہیں  ہے کہ آدمی کی آرزوؤں  کی کوئی حد ہو۔ جو کچھ ملے پھر بھی جو اسے نہیں  ملا ہے اس کے حصول میں  ہوتا ہے۔ انسان اگر اپنی حالت پر رہے تو خواہش میں  بھی لا متناہی ہے، آرزو اور غضب میں  بھی لامتناہی ہے اور تسلط حاصل کرنے کا جذبہ وحرص بھی اس میں لا متناہی ہے۔ آپ خیال نہ کریں  کہ اگر کسی شخص کوپورا منظومہ شمسی دے دیا جائے تو وہ اس کو کافی سمجھ کر بیٹھ جائے گا، بلکہ وہ ایک اور منظومہ کی طرف نکلنے کی کوشش کرے گا کہ دیکھیں  ادھر کیا خبر ہے۔ آپ دیکھئے کہ انسان آج زمین کے علاوہ دوسری جگہوں  کی تلاش میں  ہے اور دوسرے سیاروں  کو بھی تسخیر کرنا چاہتا ہے۔ ایسا نہیں  ہے کہ اگر اس نے ایک سیارے پہ کمند لگا دی ہے تو اب دوسرے سیارے کی تلاش میں  نہیں ۔ انسان کی خلقت اسی طرح ہوئی ہے۔ غضب میں  لا متناہی، خواہش میں  لا متناہی اور انانیت میں  بھی لا متناہی خلق ہوا ہے۔

آدمی کسی چیز سے سیر نہیں  ہوا کرتا مگر یہ کہ اس کی تربیت ہوجائے تو اسی تربیت کے تحت اس سیر کے آخر تک پہنچ سکتا ہے جو کہ اس سیر کااختتام ہے کہ جسے انسان حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ ہے کمال مطلق تک پہنچنا۔ اگر کمال مطلق تک پہنچ گیا تو اسے سکون حاصل ہوجاتا ہے۔

 خدا تک پہنچنے سے ہی دلوں  کو سکون ملتا ہے ۔ اس کے بغیر دلوں  کو اطمینان نہیں  ملتا۔ وہ خود بھی متوجہ نہیں  کہ یہ نفس کمال مطلق کی جانب جاناچاہتا ہے، البتہ وہ اس کمال کھو بیٹھا ہے۔ انسان کا نفس  کمال مطلق تک پہنچنا چاہتا ہے۔ یہ تشخیص دینا کہ یہ کمال ہے یاوہ کمال ہے، غلطی اسی میں  ہوتی ہے ۔ ایک شخص علم کو کمال سمجھ کر اس کے پیچھے نکلتا ہے، ایک طاقت کو کمال سمجھتا ہے اور حصول اقتدار کی تلاش میں  لگ جاتاہے۔ تمام لوگ جو دنیا میں  ہاتھ پیر ماررہے ہیں ، ان کی کوشش یہی ہے کہ کمال مطلق تک  پہنچ جائیں ۔یعنی ؛تمام لوگ اس کوشش میں  ہیں  کہ خدا کو پالیں ،لیکن وہ خود اس کی طرف متوجہ نہیں  ہیں ۔

صحیفہ امام، ج ۱۲، ص ۵۰۴۔  ۶؍۷؍۱۹۸۰ ء بحری افواج کے افسران سے خطاب

ای میل کریں