خطے میں امن کے استحکام کے لیے ایران نے علاقائی ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا
ابنا۔ تفصیلات کے مطابق، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران اور خلیج فارس کے ممالک کے مابین تعلقات بہت سے اتار چڑھاؤ کیساتھ رہے ہیں اور بعض اوقات ان میں سے بعض ملکوں کیساتھ ایران کے سفارتی تعلقات کی سطح میں کمی اور بعض دیگر ممالک کیساتھ تعلقات منقطع ہوگئے ہیں۔
سفارتی تعلقات میں کمی (ابوظبی) اور تعلقات منقطع ہونے (ریاض اور منامہ) کی آخری کیس 2015 میں وقوع پذیر ہوا اور تعلقات کی بحالی کیلئے ایران کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
اگرچہ تہران اور مشہد میں قائم سعودی سفارت خانوں اور قونصل خانوں پر ایران میں متعدد باغیوں کے حملے نے تعلقات کی سطح کو کم کرنے یا منقطع کرنے کیلئے ریاض اور ابوظبی کیلئے بہانہ فراہم کردیا تا ہم ان ملکوں سے کشیدگی کی اصل وجہ ایران اور گروپ 1+5 کیساتھ مذاکرات میں پیشرفت تھی، جس کی ان ممالک نے شدید مخالفت کی تھی۔
سعودی شیعہ عالم دین کو پھانسی دینے اور منیٰ کے دو واقعات میں سعودی حکام کی غفلت اور بد انتظامی کے سبب ایرانی حجاج کا قتل اس تناؤ کی دوسری وجوہات تھیں۔
البتہ اس میں کوئی قطعی یقین نہیں ہے کہ خود ریاض یا دوسرے ایرانی دشمنوں نے ایران میں سعودی سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے یا اس کی ہدایت کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔
ایران اور گروپ 1+5 کے درمیان جوہری معاہدے طے پانے کے بعد ریاض اور ابوظبی نے ناجائز صہیونی ریاست کیساتھ مل کر اس معاہدے کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکانے کی تمام تر کوششیں کیں۔
ان کی کوششیں امریکہ میں ٹرمپ کے برسرکار آنے سے کامیاب ہوگئیں اور بالاخر امریکہ مئی 2017 میں قرارداد 2231 کیخلاف ورزی کرتے ہوئے ایران جوہری سے علیحدہ ہوگیا اور اس کے ساتھ ساتھ ایرانی قومی کیخلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی کو بروئے کار لایا۔
ایسی پالیسی جسے انسانیت کیخلاف جرم سمجھا جاتا ہے کیونکہ کرونا کی عالمگیر وبا نے اسے نہیں روکا اور اسے ایرانی عوام کو زیادہ سے زیادہ نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا گیا۔
اس کے علاوہ، ریاض اور ابوظبی نے غیر ملکی افواج کو خلیج فارس کے خطے میں طلب کرکے عدم استحکام، عدم تحفظ اور خطرے سے دوچار امن کی راہ اپنائی۔
ان تمام تر سازشوں کے باوجود ایران نے ہمیشہ علاقائی ملکوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور خطے میں قیام امن اور استحکام سے متعلق کوششوں کی راہ میں ہرمز امن منصوبے کی تجویز کو پیش کیا ہے؛ جس سے عرب ملکوں سے متعلق ایران کا تعمیری موقف ظاہر ہوتا ہے۔
ایران کا عقیدہ ہے کہ علاقے میں قیام امن اور استحکام کو خرید نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ علاقائی ملکوں کے درمیان تعاون سے قائم ہوگا اسی لیے ایران نے علاقائی ملکوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
حالیہ امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی شکست کیساتھ ، ان کے نفرت انگیز سیکرٹری پومپیو اور کچھ دوسرے امریکی جنگجو عہدے دار خطے میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کو بڑھانے کیلئے اپنی آخری کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔
ایکسوس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے خاتمے تک صرف 10 ہفتے باقی ہیں اور ایسی صورتحال میں ٹرمپ انتظامیہ کے سرکاری عہدیدار، تل ابیب اور متعدد عرب ریاستوں کیساتھ مل کر، ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے ایک طویل مدتی منصوبے پر کام کر رہے ہیں؛ اس سلسلے میں ٹرمپ انتظامیہ کے خصوصی نمائندے برائے ایران کے امور "ایلیٹ آبرامس" نے اپنے علاقائی دورہ کا آغاز تل ابیب سے کیا ہے۔
اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں امریکہ اور ناجائز صہیونی ریاست کی ہر کسی طرح مہم جوئی کیخلاف مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ غیر ملکیوں کیساتھ خطے کے رہنماؤں کا ساتھ دینا کبھی ان کے مفادات میں نہیں ہوگا؛ تو اس حوالے سے ایرانی وزیر خارجہ "محمد جواد ظریف" نے ایک ٹوئٹر پیغام میں خطی ممالک کو کشیدکی کے خاتمے اور تعاون بڑھانے کی دعوت دی۔