ہفتہ وحدت اور حرمت رسول (ص)
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
نبی اکرمﷺ کی عزت اسلام اور اہل اسلام کی عزت ہے۔ ہر مسلمان وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں ہو، وہ نبی اکرمﷺ سے عشق و عقیدت کا رشتہ رکھتا ہے۔ ہم گناہ گار ہیں، اعمال میں کوتاہی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بہت سے غلط عمل بھی کر بیٹھتے ہیں، مگر عشق پیغمبرﷺ ایسی چیز ہے، جس پر کسی قسم کی کوئی سودے بازی نہیں ہوسکتی۔ ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تن من دھن سے آقا پر جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہو۔ قرآن مجید میں ارشاد باری ہوتا ہے: "کہدیجئے: تمہارے آباء اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔"(توبہ ۲۴) مولانا ظفر علی خان کا شہرہ آفاق شعر بھی اسی مطلب کو ادا کر رہا ہے:
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا، ایماں ہو نہیں سکتا
فرانس کی مسلم مخالفت کی ایک تاریخ ہے۔ صلیبی جنگوں میں فرانس سے بڑی تعداد میں سپاہی ان جنگوں میں شریک رہے اور بادشاہ بھی اس کی قیادت کیا کرتے تھے۔ پہلی صلیبی جنگ میں سب سے زیادہ منظم اور زبردست گروہ جو دس لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھا، 1097ء میں فلسطین روانہ ہوا۔ اس میں انگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سسلی کے شہزادے شامل تھے۔ اس متحدہ فوج کی کمان ایک فرانسیسی گاڈ فرے کے سپرد تھی۔ دوسری صلیبی جنگ کے لیے 1148ء میں جرمنی کے بادشاہ کونراڈ سوم اور فرانس کے حکمران لوئی ہفتم کی قیادت میں 9 لاکھ افراد پر مشتمل فوج مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے یورپ سے روانہ ہوئی۔ تیسری صلیبی جنگ میں سارا یورپ شریک تھا۔ شاہ جرمنی فریڈرک باربروسا، شاہ فرانس فلپ آگسٹس اور شاہ انگلستان رچرڈ شیر دل نے بہ نفس نفیس ان جنگوں میں شرکت کی۔
ساتویں صلیبی جنگ میں فرانس کے شہنشاہ لوئی نہم نے مصر پر حملہ کیا۔ آٹھویں صلیبی جنگ میں ایڈروڈ اول شاہ انگلستان اور شاہ فرانس نے مل کر شام پر حملہ کیا۔ مسیحی راہبوں کے مطابق کیونکہ بڑے گناہگار ہوتے ہیں، اس لیے انہیں مسلمانوں کے خلاف فتح حاصل نہیں ہو رہی، جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں، اس لیے وہ صلیبیوں کو فتح دلائیں گے۔ اس مقصد کے لیے 37 ہزار بچوں کا ایک لشکر ترتیب دیا گیا، جو فرانس سے روانہ ہوا۔ 30 ہزار بچوں پر مشتمل فرانسیسی لشکر کی قیادت افواج کے سپہ سالار اسٹیفن نے کی۔ یہ جنگیں تو مقدس سرزمین کو مسلمانوں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے لڑی گئیں۔ ترکی کا راستہ روکنے کے لیے اور اسے یورپ سے دور کرنے کے لیے جنگ نکوپولس 1396ء موجودہ بلغاریہ کی حدود میں نکوپولس کے مقام پر ہونے والی اس جنگ میں بایزید یلدرم نے فرانس اور ہنگری کے مشترکہ لشکر کو عظیم الشان شکست دی۔
آپ ملاحظہ کریں کہ تمام جنگوں میں فرانس نے بنیادی اور قائدانہ کردار ادا کیا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فرانس کی قیادت کے ذہن میں اسلام دشمنی موجود ہے۔ اسی طرح چار سال قبل کی امریکی تھنک ٹینک اور جریدے "فارن پالیسی ان فوکس" میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تجزیہ کیا گیا کہ فرانس میں لئی ستے کے تصور کو اسلام کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، مگر اس کے پیچھے حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذریعے فرانس کی قومی شناخت اور اس کے تشخص، ان کی ماضی میں سامراجی طرز حکمرانی، سفید فام بالادستی اور سب سے بڑھ کر مسیحیت کی شناخت کا دفاع کیا جاتا ہے۔ کالونیل دور میں فرانس کے الجزائر اور مراکش پر مظالم کی ایک تاریخ ہے، اس میں اس نے دس لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا۔ اس دوران فرانس نے الجزائر کو فرانس کا حصہ بنا لیا، مگر وہاں کے مسلمانوں کو فرانس کی شہریت بڑی تگ و دو کے بعد دی جاتی تھی۔ فرانس میں 57 لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں، فرانس کی مساجد کی تنظیم کے مطابق اس وقت فرانس میں 295 مساجد ہیں، جو پورے فرانس میں پھیلی ہوئی ہیں۔ فرانس میں نو فیصد سے کم مسلمان رہتے ہیں۔
فرانس میں سب کچھ آزادی اظہار کی آڑ میں کیا جا رہا ہے، وہاں قومی مقولہ "آزادی، برابری اور اخوت" ہے، جو کہ انقلاب فرانس کے موقع پر پہلی بار سامنے آیا اور 1848ء کے انقلاب کے موقع پر اسے باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا۔ ابھی اسی کی آڑ میں نبی اکرمﷺ کی سرکاری سرپرستی میں توہین کی جا رہی ہے۔ فرانس ریاستی سطح پر مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں کر رہا ہے۔ اسمبلی میں ایک ممبر قرآن کو کلنگ کی کتاب قرار دے رہا ہے۔ یقیناً اس نے پڑھا نہیں ہوگا، ورنہ اس کی رائے اس کے برعکس ہوتی، یہ تو انسانیت کی کتاب ہے۔ آزادی کا یہ نعرہ ہی فراڈ ہے، یہ فقط اسلامی شعائر کی توہین کے وقت ہی یاد آجاتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی ذات گرامی کی توہین سے ہمارے قلوب زخمی ہوتے ہیں۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے فرانس کے جوانوں کے نام پیغام میں درست فرمایا کہ میکرون سے پوچھیں کہ وہ کیسے پیغمبر اکرمﷺ کی توہین کی حمایت کر رہا ہے؟ اور کیسے اسے آزادی اظہار کہہ رہا ہے؟ درحالانکہ وہ اسی دوران ہولو کاسٹ کی نفی کرنے کو جرم بتا رہا ہے اور جو اس کی نفی میں لکھے گا، وہ جیل جائے گا اور ہمارے نبیﷺ کی اہانت کرنے والا آزاد رہے گا۔؟
مسلمان ابتدائے اسلام سے نبی اکرمﷺ کی ذات گرامی حق کے لیے قربانیاں دیتے ہیں آئے ہیں، وہ اپنی جان قربان کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ حضرت خبیب بن عدیؓ کفار کی ایک سازش میں کفار کی زد میں آگئے۔ کفار نے انہیں چند دن تک بھوکا پیاسا قید رکھا، پھر انہیں سولی پر لٹکانے کیلئے ایک مقام پر لے آئے۔ تختۂ دار پر کھڑا کرنے کے بعد ان ظالموں نے کہا کہ اگر اسلام چھوڑ دو تو جان بخشی ہوسکتی ہے، مگر حضرت خبیبؓ کا جواب تھا کہ جب اسلام نہ رہا تو جان رکھ کر کیا کروں؟ ظالم کفار نے نہ صرف انہیں سولی پر لٹکایا بلکہ نیزوں سے ان کے جسم کو اذیت بھی دینے لگے۔ ایک شقی القلب نے نیزہ سے جگر چھید کر کہا: اب تو تم ضرور یہ پسند کرتے ہوگے کہ میری جگہ محمد (ص) ہوتے اور میں چھوٹ جاتا۔ یہ سننا تھا کہ سیدنا خبیبؓ نہایت جوش سے بول اٹھے "اللہ کی قسم! مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ میری جان بچ جائے اور اس کے عوض محمدﷺکے پائے مبارک میں کانٹا چبھے۔"
ایام ولادت رسالت مآبﷺ ہیں، مبارک ایام ہیں، خوشیوں کے ایام ہیں، ہر طرف چراغاں ہی چراغاں ہے، ایسے میں نبی اکرمﷺ کی ذات گرامی کے خلاف مہم جاری ہے۔ بدزبان اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے سے عاری لوگ ہمارے قلوب کو زخمی کر رہے ہیں۔ یہ ایام ولادت جو ہفتہ وحدت کے عنوان سے منائے جا رہے ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ امت حرمت رسولﷺ کے معاملے پر ایک ہو جائے۔ ہمارا عشق رسولﷺ کہہ رہا ہے کہ ایک ہو جائیں۔ ہم ایک ہو جائیں گے تو ان شاء اللہ کسی کو ہمارے جذبات کو پارہ پارہ کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔