عقیدہ مہدویت

کیا قرآن کریم اور عقیدہ مہدویت میں کوئی ربط ہے؟

سورہ صف میں ارشاد ہوتا ہے: وہ ایسا خدا ہے جس نے اپنے رسولوں ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ تمام ادیان پر غالب آجائے اگر چہ مشرکین کو وہ برا ہی لگے

کیا قرآن کریم اور عقیدہ مہدویت میں کوئی ربط ہے؟

مطلب یہ ہے کہ کیا قرآن کریم نے مہدویت کے بارے میں تفصیل یا اجمال کے ساتھ کچھ اشارہ کیا ہے؟ بالفاظ دیگر کیا روایات میں جس مہدی منتظر کا تذکرہ ہے اور اس کے حسب و نسب اور کردار کی بات کی گئی ہے، اس کے بارے میں قرآن کریم نے بھی کچھ بیان کیا ہے یا نہیں؟

یہ ایک ایسا سوال ہے کہ حضرت آدم (ع) سے لیکر حضرت خاتم (ص) تک سارے انبیاء اور مرسلین نے اس عقیدہ اور اس نام کا ذکر کیا ہے۔ اور آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں بھی اس کا ذکر ہے۔ لیکن بعض کج فہم کہتے ہیں کہ اگر مہدویت کی داستان صحیح ہوتی تو قرآن کریم میں اس کا کوئی ذکر تو ہونا چاہیئے جبکہ ان تمام آسمانی کتابوں میں لفظ مہدی کا بھی ذکر نہیں ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر صحیح موضوع قرآن کریم میں اس کے جزئیات اور مشخصات کے ساتھ ذکر ہوا هی ہو۔ بہت سارے جزئیات ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم نے ذکر نہیں کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس پاکیزہ اور مقدس کتاب میں چند آیات ہیں جو اجمال کے ساتا ایک دن خوشخبری اور نوید دیتی ہیں: حق پرست لوگ، حزب اللہ، دین کی حامی اور مددگار، دنیا کے نیک اور صالح لوگ، ایک دن زمین کی حکومت اور اس کے اقتدار کے مالک ہوں گے اور دین اسلام سارے ادیان پر غالب آئے گا۔ مثال کے طور پر: سورہ انبیاء میں ارشاد ہوتا ہے: ہم نے توریت میں لکھنے کے باوجود زبور میں لکھا ہے کہ ہمارے صالح اور نیک بندے زمین کی وارث ہوں گے۔

سورہ نور میں ارشاد ہوتا ہے: خداوند عالم نے تم میں سے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجا لانے کو زمین پر خلیفہ بنانے کا وعدہ دیا ہے۔ جیسا کہ تم سے پہلے والوں کو بھی خلیفہ بنایا تھا اور ان کے لئے جس دین کو پسند کیا ہے اسے استوار اور قوی بنائے گا اور ان کے خوف کو امن و سلامتی میں تبدیل کردے گا تا کہ وہ لوگ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک قرار نہ دیں۔

سورہ قصص میں ارشاد ہوا ہے: ہم نے ارادہ کیا ہے کہ زمین پر کمزور سمجھے جانے والوں پر احسان کرکے (انھیں لوگوں کا) پیشوا اور زمین کا وارث بنائیں۔

سورہ صف میں ارشاد ہوتا ہے: وہ ایسا خدا ہے جس نے اپنے رسولوں ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ تمام ادیان پر غالب آجائے اگر چہ مشرکین کو وہ برا ہی لگے۔

مذکورہ بالا آیات سے اجمالا استفادہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک دن ایسا آنے والا ہے جب زمین کا ادارہ اور اقتدار مومنین اور اللہ کے نیک بندوں کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ تمدن بشریت کے رہبر اور پیشوا ہوں گے اور دین اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا اور ہر طرف توحید و یکتا پرستی کا بول بالا ہوگا اور کفر و شرک رسوا اور نابود ہوجائے گا۔ وہ درخشاں اور تابناک دن ایک غیبی مصلح، انسانیت کے نجات دہندہ مہدی موعود (عج)کی تحریک کا دن ہوگا اور وہ عالمگیر اور ہمہ جانبہ انقلاب نیک مسلمانوں کے توسط انجام پائے گا۔ اسی لئے امام خمینی (رح) اپنی اسلامی تحریک اور انقلاب کو حضرت مہدی (عج) کے انقلاب اور آپ کی تحریک کا مقدمہ کہتے ہیں اور دعا کرتے تھے کہ ہمارا یہ انقلاب، انقلاب مہدی کا مقدمہ ہے۔

قرآن کریم میں اجمال کے ساتھ روایات میں اور دیگر ادیان و مذاہب کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ اس مہدی موعود اور اس روشن اور تابندہ دن کا ذکر ہوا ہے۔ سمجھنے کے لئے عقل سلیم اور فکر فہیم درکار ہے۔ نیز ہر قسم کے تعصبات سے خالی ذہن اور قرآن میں تدبر اور تفکر کی ضرورت ہے۔ خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس دن کے لئے آمادہ ہونے  کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔

ای میل کریں