نواب صفوی
سید مجتبی میر لوحی 1925 ء خانی آباد محلہ میں ایک عالم گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ یہ نواب صفوی سے معروف تھے۔ مجتبی نے 7/ سال کی عمر میں حکیم نظامی اسکول میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد جرمنیوں کے ٹیکنالوجی اسکول میں اپنی تعلیم آگے بڑھائی اور سن 1941ء میں اسی مدرسہ میں کشف حجاب کے خلاف مظاہرہ کیا۔ یہ اسی وقت خانی آباد محلہ کی ایک مسجد میں دینی دروس کی تعلیم حاصل کرنے میں بھی مشغول ہوئے۔ پھر رضا خان کے ملک سے نکلنے کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں لگ گئے۔ 18/ سال کی عمر میں 9/ دسمبر 1942 ء کو حکومت کے خلاف تقریر کی اور یہ تقریر پہلوی حکومت کے خلاف پہلا مقابلہ شمار کیا گیا۔
انهوں نے اپنی شعلہ بیانی اور طوفانی تقریر سے طالبعلموں اور دیگر مدارس کے طلبہ اور لوگوں کی ہمراہی حاصل کی اور اس کے بعد شورائے ملی کے سامنے قوام کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اس پر پولیس نے مداخلت کی اور لوگوں پر گولی چلادی جس کی وجہ سے دو افراد جاں بحق ہوئے۔ اس حادثہ نے مجتبی کی شخصیت پر بہت گہرا اثر چھوڑا اور انہیں پہلوی حکومت کے خلاف مقابلہ کرنے میں کچھ زیادہ ہی مضبوط اور مصمم کیا۔ نواب اپنی تحریک جاری رکھے رہے اور شاہی نظام کے خلاف کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کیا۔ اس کے لئے انہیں قید و بند کی زندگی بھی گذارنی پڑی، سختیاں برداشت کیں، مصائب و آلام کا سامنا کیا لیکن اپنے عزم و ارادہ سے پیچھے نہیں ہٹے۔
نواب صفوی جب جیل سے رہا ہوگئے تو فدائیاں اسلام نامی ایک کمیٹی بنائی اور اس کا اعلان کرادیا۔ انہوں نے اس اعلان میں برادری، بھائی چارہ، مقاومت اور اتحاد کو اس کی بنیادی شرط قرار یدا۔ اسلام اور قرآن کی حاکمیت کو اس تحریک کا اصلی مقصد اور شہادت، انتقام اور قصاص کو مقابلہ کی اصلی روش بتائی۔
نواب صفوی 17/ جون 1948ء کو عبدالحسین ھژیر کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرہ کرنے کے بانی تھے۔ یہ مظاہرہ ھژیر کے اقتدار پر آنے کے 4/ دن بعد عمل میں آیا تھا۔
نواب صفوی کے انقلابی دلیرانہ کارناموں کی وجہ سے جمہوری اسلامی انھیں ایک عظیم مجاہد اور شہید شمار کرتی ہے۔ اور ان کے نام پر متعدد مقامات کے نام رکھے ہیں منجملہ ایک ان کے قدیمی محلہ سے گذرنے والی روڈ کا نام ان کے نام پر ہے۔
جامعہ روحانیت مبارز کے ایک روکن، جعفر شجونی نواب صفوی جیسے افراد کے وجود کو انقلاب اسلامی کے دفاع کے لئے لازم جانتے ہیں اور انہوں نے کہا کہ میں انقلاب اسلامی کے دفاع کے لئے شہید نواب صفوی جیسے شجاع اور بہادر کی ضرورت ہے کہ ملت ایران کے اعتقادات کا دفاع کریں۔ آخر کار پہلوی حکومت سے اس مجاہد اور شجاع کے انقلابی بیانات اور حرکات و سکنات برداشت نہ ہوسکے اور اس مجاہد ملت و شہید راہ حق کو اپنے کاسہ لیسوں ے ذریعہ 18/ جنوری 1956 ء کو گولی مرواکر شہید کرڈالا۔
ایسے باوفا اور سچے مجاہد پر لاکھوں درود و سلام۔