آیت اللہ جوادی آملی

آیت اللہ جوادی آملی اور صہیونیت کے خلاف مبارزہ

یوم القدس کی ریلیوں میں شرکت پر تاکید

آیت اللہ جوادی آملی اور صہیونیت کے خلاف مبارزہ

آیت اللہ جوادی آملی عالم تشیع کے ان علماء اور فقہا میں سے ایک ہیں جو نہ صرف علم و عمل اور تقویٰ و پرہیزگاری میں اعلیٰ مراتب پر فائز ہیں بلکہ سیاسی میدان میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ آیت اللہ جوادی آملی ۱۹۶۲ سے امام خمینی (رہ) کے ہمراہ انقلابی سرگرمیوں میں پیش پیش تھے اور مختلف عہدوں منجملہ انقلابی عدلیہ کی سربراہی، سپریم جوڈیشل کونسل، ماہرین قانون اسمبلی اور مجلس خبرگان رہبری کی رکنیت پر فائز رہنے کے علاوہ قم میں خطیب نماز جمعہ بھی رہے ہیں۔ حال حاضر میں بھی آپ حوزہ علمیہ قم کے نامور استاد اور مفسر قرآن مانے جاتے ہیں۔ (۱(

جہان تشیع کے یہ فقیہ بھی دیگر فقہا کی طرح عالم اسلام کے مسائل کو لے کر بہت نگران ہیں۔ آپ فلسطین اور مسئلہ قدس کے حوالے سے فرماتے ہیں: قدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اگر اسے کوئی صدمہ پہنچا تو اسلامی معاشرہ داغدار ہو جائے گا۔ (۲(

آپ فلسطین اور مزاحمتی محاذ کے عنوان سے منعقدہ مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں میں تقاریر کر کے یا بعض اہم مناسبتوں پر اپنے پیغامات ارسال کر کے امت مسلمہ کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ ان اہم مناسبتوں میں سے ایک عالمی یوم القدس ہے کہ آیت اللہ جوادی آملی دیگر انقلابی علماء کی طرح بنفس نفیس اس موقع پر نکالی جانے والی ریلیوں میں شرکت کرتے اور اپنے پیغام کے ذریعے یوم القدس کی اہمیت سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں۔

 

یوم القدس کی ریلیوں میں شرکت پر تاکید

آیت اللہ جوادی آملی نے رواں سال عالمی یوم القدس کے موقع پر امریکی نام نہاد امن منصوبے صدی کی ڈیل کی مذمت میں فرمایا:

” صدی کی ڈیل فلسطینی مظلوموں پر ظلم بھی ہے اور دین اسلام کی توہین بھی ہے۔ اس منصوبے میں ستم دیدہ فلسطین پر ظلم بھی کیا گیا ہے اور اسلام پر بھی ظلم و ستم کیا گیا ہے‘‘۔ (۳(

یا دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں:

“یوم القدس کہ جو حضرت امام خمینی(رہ) کی سنت حسنہ ہے صرف فلسطینی مظلومین کی آزادی کے لیے نہیں ہے بلکہ یوم القدس عالم اسلام کے طول و عرض کے برابر تقدس رکھتا ہے، موجودہ صدی کا سب سے بڑا مسئلہ، مسئلہ فلسطین ہے۔ ہم اگر فلسطین کی غصب شدہ زمین کو واپس لوٹانا چاہیں، ہم اگر فلسطینیوں کے حقوق انہیں دلوانا چاہیں، ہم اگر بحرین کے ناگوار واقعات کی مذمت کرنا چاہیں، ہم اگر عالمی معاشرے سے مطالبہ کرنا چاہیں کہ ملکوں کو آزادی، حریت اور تقدس دیا جائے اور عالمی سامراج اور صہیونیت کے ہاتھ کھلے نہ رکھے جائیں، تو ہم سب پر لازم ہے کہ ہم یوم القدس کی ریلیوں میں شرکت کریں”۔


آیت اللہ جوادی آملی سے ہندوستان کے “غزہ یکجہتی کاروان” کے اراکین کی ملاقات

آیت اللہ جوادی آملی نے اس کاروان کے اراکین سے فرمایا: ” انشاء اللہ یہ جد و جہد جو ہندوستان سے شروع ہوئی ہے غزہ پر ختم ہو گی اور فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کا سبب بنے گی۔ آپ ایک جانب سے غاصب صہیونی ریاست کے جرائم اور قتل و غارت کی مذمت کرنے کے لیے نکلے ہیں اور دوسری جانب سے غزہ کے مظلوم اور بے سہارا لوگوں کی نجات کے لیے کہ یہ دونوں کام بہت اہمیت کے حامل ہیں”۔

آپ نے اس گفتگو میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری صہیونی ریاست کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ظلم و ستم چاہے کوئی مومن انجام دے یا کافر ، کار حرام ہے اور جو کچھ فلسطین اور غزہ میں گزشتہ ۶۰ سال سے ہو رہا ہے اسی ظلم و ستم کا مصداق ہے۔ عرصہ دراز سے فلسطینی عوام غاصب صہیونی ریاست کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ دشمن فلسطینی بستیوں پر حملہ کرتے اور ان کے گھروں کو ویراں کر دیتے ہیں نہ اسکول دیکھتے ہیں نہ ہسپتال، سب کو مسمار کر دیتے ہیں اور اگر کوئی ان دردناک مناظر کو دیکھے اور اس کے خلاف آواز بلند نہ کرے تو معلوم ہو گا کہ اس کے اندر نہ انسانیت ہے نہ غیریت”۔ (۴(

 

امام علی علیہ السلام کے کلام کی تفسیر میں مزاحمتی محاذ کی طرف اشارہ

آیت اللہ جوادی آملی ایران کے ٹی وی چینل ۳ میں “حکمت ربانی” کے عنوان سے ایک پروگرام میں مولائے کائنات علی علیہ السلام کے کلام کی تفسیر میں ڈرپوک انسان کے بارے میں یوں کہتے ہیں: “پست و ذلیل قوم کے علاوہ کوئی ظلم برداشت نہیں کرتا، اگر کوئی قوم ذلیل و پست ہو جائے گی تو وہ ظلم سہہ لے گی لیکن ایرانی قوم، لبنانی قوم، فلسطینی اور یمنی قوم کبھی ظلم کے آگے دب نہیں سکتے چاہے ظالم عالمی سامراج ہو یا صہونیت” (۵(

 

وزیر اطلاعات کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل کی سازشوں کی طرف اشارہ

آیت اللہ جوادی آملی نے سنہ ۲۰۱۴ میں ایران کے وزیر اطلاعات کے ساتھ ہوئی ایک ملاقات میں کہا: ”اسرائیل کے دائمی خطرے کے بموجب، وزارت اطلاعات کو صہیونی سازشوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے”۔ (۶(

 

نماز جمعہ کے خطبوں میں صہیونی ریاست کے جرائم پر اعتراض

آپ قم میں نماز جمعہ کے خطبوں میں مختلف مناسبتوں سے مسئلہ فلسطین پر روشنی ڈالتے تھے، بطور مثال جب ۲۰۰۶ میں اسرائیل نے لبنان اور فلسطین پر حملہ کیا تو آپ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: “بوش اور اقوام متحدہ خود بے لگام باغی ہیں وہ صہیونیوں کے جرائم کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے”۔ انہوں نے عرب ممالک کے حکمرانوں کی خاموشی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عرب حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ پہلوی رجیم کی سرنوشت ان کے انتظار میں بھی ہے، آپ نے امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا: “تمام مسلمانوں پر واجب ہے ہر ممکنہ صورت میں فلسطین اور لبنان کے مظلوم عوام کی مدد کریں”۔ (۷(

 

درس اخلاق میں یمن اور علاقائی مسائل کی طرف توجہ

سعودی عرب کی جانب سے یمن پر یلغار کے آغاز کے دوران آیت اللہ جوادی آملی نے ۲۰۱۵ میں اپنے ایک درس اخلاق میں  کہا تھا: اگر یمن جاہل آل سعود کے خلاف جنگ کر رہا ہے تو یہ کربلائی اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ ہے اگر فلسطین اسرائیل کے خلاف ڈٹا ہوا ہے تو یہ کربلائی اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ ہے اور اب اگر ایران بھی اسلامی ایران ہے تو کربلا کی برکتوں سے ہے۔ (۸(

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ

حوالہ جات


۱۔ https://www.jameehmodarresin.org/azae-jameeh/azae-kononi/88-javadi-amoli-abdollah/32-.html

۲- https://www.irna.ir/news/82132736.

۳- باشگاه خبرنگاران، اخبار:گروه قم، معامله قرن اهانت به اسلام، کد: ۶۹۵۱۹۸۶، www.yjc.ir.

۴- http://iuuu.ir/fa/1822.

۵- سایت ابناء، اخبار مراجع تقلید، آیت الله جوادی آملی: ظلم را جز ملت پست کسی تحمل نمی کند، کد: ۷۵۲۲۲۳، fa.abna24.com.

۶- https://www.mashreghnews.ir/news/368550.

۷- https://www.mehrnews.com/news/356044.

۸- http://akharinkhabar.ir/politics/2186566.

ای میل کریں