فٹبال ڈپلومیسی
عالمی سفارتکاری میں ڈپلومیسی کی کئی اقسام کا ذکر ہے، ان میں ایک کھیل کے ذریعے دو ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔ یوں تو اس کی ماضی میں کئی مثالیں ملتی ہیں لیکن برصغیر پاک و ہند میں کسی زمانے میں "کرکٹ ڈپلومیسی" کا بڑا چرچا رہا۔ 80ء کے عشرے میں ہندوستان نے پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ ہندوستانی افواج پاکستانی سرحدوں پر اکٹھی ہو رہی تھیں کہ پاکستان کے اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق نے کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے ہندوستان کا دورہ کیا اور دونوں ملکوں پر چھائے جنگ کے بادل چھٹ گئے۔ سعودی عرب کی اسرائیل نواز حکومت اسی طرح کا ایک منصوبہ بنا رہی ہے، وہ مقبوضہ فلسطین، "اسرائیل" کو سرکاری سطح پر قبول کرنے کے لیے بالواسط اقدامات انجام دے رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ کے دورہ سعودی عرب اور شمشیروں کے رقص کے ساتھ ساتھ جو بات بن سلمان کو کہی گئی تھی، وہ سعودی عرب اسرائیل تعلقات کو بحالی تھی۔
بن سلمان اور اس کی صہیونیت نواز ٹیم اس وقت سے ایسے کئی اقدام انجام دے رہی ہے جس سے اسرائیل سے سعودی عرب کے کھلے عام سرکاری تعلقات بحال ہونے کے امکانات واضح ہو رہے ہیں۔ آل سعود اور صہیونی حکومت کے درمیان خفیہ تعلقات سے کوئی انکار نہیں کرتا، لیکن سرکاری سطح پر سعودی عرب اب بھی اسرائیل کو ایک غیرقانونی ریاست سمجھتا ہے۔ سعودی عرب ایک نئی سازش کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقے رام اللہ میں فلسطین اور سعودی عرب کے درمیان میچ کرانے پر بضد ہے۔ قطر میں منعقدہ 2020ء کے عالمی فٹ بال ٹورنامنٹ کی تیاریوں کے سلسلے میں مختلف ممالک میں میچز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اس موقع سے فائدہ اٹھا کر مقبوضہ علاقوں میں ایک میچ منعقد کرانے پر تلا ہوا ہے، جس کی حماس اور اسلامی جہاد سمیت تمام فلسطینی تنظیمیں مخالفت کر رہی ہیں۔ اگر یہ میچ منعقد ہوتا ہے تو سعودی ٹیم کو اسرائیلی ویزہ لینا ہو گا۔
اسرائیل کی ریاست کی مہر سعودی کھلاڑیوں کے پاسپورٹ پر لگے گی، جس سے سعودی عرب عملی طور پر اسرائیل کو ایک حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کرے گا۔ یہ ایک دستاویزی ثبوت ہو گا کہ سعودی عرب نے اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سمیت وہ ممالک جو اسرائیل کو ایک غاصب حکومت سمجھتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے عالمی میچوں میں اسرائیلی کھلاڑیوں سے میچ تک نہیں کھیلتے کہ اس سے اسرائیل کی سرکاری حیثیت ثابت ہو جائے گی۔ ایرانی کھلاڑیوں نے کشتی سمیت کئی عالمی مقابلوں میں اپنا یقینی میڈل اس لیے گنوا دیا کہ اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ مقابلے میں فلسطینی کاز کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ ایرانی کھلاڑی کسی دوسرے ملک میں اسرائیلی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا گوارہ نہیں کرتے، جبکہ عالم عرب نیز عالم اسلام اور خادم الحرمین شریفین کا دعوی کرنے والی آل سعود حکومت قبلہ اول کے غاصبوں کے ساتھ مقبوضہ علاقے رام اللہ میں فٹ بال میچ کھیلنے پر اصرار کر رہی ہے۔