اسلامی نظام کی سربلندی اور سامراجی نظام کی سرنگونی

اسلامی نظام کی سربلندی اور سامراجی نظام کی سرنگونی

ایرانی عہدیداروں نے امریکی عہدیداروں سے ملاقات نہ کرنے کی وجہ یوں بیان کی کہ جب تک امریکہ ایران پر لگائی گئیں تمام ظالمانہ پابندیوں سے دستبردار نہیں ہوتا، امریکیوں سے ملاقات اور مذاکرات ممکن نہیں ہیں

اسلامی نظام کی سربلندی اور سامراجی نظام کی سرنگونی

تحریر: عماد آبشانس

 

سفارتی رسم و رواج کے مطابق ہمیشہ وزیر خارجہ صدر جمہوریہ کی ملاقات کے لیے جایا کرتا ہے، لیکن گذشتہ ہفتے فرانس کے شہر بیاریٹز میں ڈپلومیسی دنیا میں معمول کے خلاف ایک واقعہ پیش آیا اور وہ یہ تھا کہ فرانس کے صدر جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے لیے خود ان کے پاس گئے۔ فرانسیسی صدر میکرون نے ڈاکٹر ظریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں جو چیز بڑی عجیب نظر آئی، وہ یہ تھی کہ یہ ملاقات نہ سفارتی رسم و رواج کے مطابق تھی، نہ کسی سفارتی مقام پر تھی اور نہ کسی سفارتکار کی اقامتگاہ پر، بلکہ بیاریٹز شہر کی بلدیہ نے ایک دفتر ڈاکٹر ظریف کے اختیار میں دیا، جہاں پر صدر میکرون نے ان سے ملاقات کی۔ لیکن بعض دوسرے اہم واقعات کی بنا پر یہ واقعہ خبروں کی اہم سرخیوں میں جگہ نہ پا سکا، لیکن بظاہر ماجرا کچھ یوں ہوا کہ فرانسیسیوں نے ڈاکٹر ظریف کو دعوت دی تھی کہ فرانس میں ایک کانفرنس کے دوران امریکی عہدیداروں سے ملاقات کریں، اگرچہ خفیہ طور پر۔ لیکن ڈاکٹر ظریف نے سفر سے پہلے قطعی طور پر منع کر دیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں امریکیوں کے ساتھ ملاقات نہیں کریں گے، حتیٰ اس راستے سے بھی نہیں گزریں گے، جہاں امریکیوں سے اتفاقی ملاقات کا احتمال پایا جاتا ہو۔

ایرانی عہدیداروں نے امریکی عہدیداروں سے ملاقات نہ کرنے کی وجہ یوں بیان کی کہ جب تک امریکہ ایران پر لگائی گئیں تمام ظالمانہ پابندیوں سے دستبردار نہیں ہوتا، امریکیوں سے ملاقات اور مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ اس وجہ سے ایرانی وزیر خارجہ نے اس ہوٹل میں بھی رہنا پسند نہیں کیا، جس میں فرانسیسی صدر میکرون اور امریکی عہدیدار اقامت پذیر تھے۔ البتہ اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیئے کہ سولہ ماہ قبل جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تو امریکی وزیر خارجہ مائک پمپئو نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے 12 شرطیں معین کی تھیں۔ چند روز بعد رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے سات شرطوں کا اعلان کر دیا تھا۔ حالیہ دنوں نہ صرف امریکہ کی بارہ شرطوں کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے بلکہ امریکی صدر متعدد بار غیر مشروط طور پر ایران کے ساتھ گفتگو کرنے کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ایران کی ایک ایک شرط دھیرے دھیرے تحقق پا رہی ہے۔

ایرانیوں نے نہایت ہوشیاری سے کام لیا، جس کی وجہ سے امریکی اپنے شرائط کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہوگئے اور امریکہ کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک بھی۔ اب باری ہے ایران کی کہ ایران اس کھیل کو کیسے کھیلتا ہے اور امریکہ و یورپ کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر کیسے مجبور کرتا ہے۔؟ البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا ہےکہ کھیل بالکل خطرے سے خالی ہے، لیکن ایرانیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جس طرح وہ نڈر جنگجو ہیں، اسی طرح وہ ہوشیار سیاست دان بھی ہیں۔ اب آپ سوچیں کہ اس بار امریکی ایک اکیلے ملک کے روبرو نہیں ہیں بلکہ ایک محاذ کے روبرو ہیں کہ جو نڈر اور بے باک جنگجووں سے بھرا ہوا ہے اور علاقے میں جس طرف بھی امریکی نگاہ دوڑاتے ہیں، خود کو ایرانیوں کے اتحادیوں کے محاصرے میں پاتے ہیں۔ امریکی اور یورپین یہ سوچ رہے تھے کہ جب ایرانی یہ کہتے ہیں کہ اگر ایران کا تیل برآمد نہیں کیا جائے گا تو کسی بھی ملک کا تیل برآمد نہیں ہوگا تو اس سے ایرانیوں کی مراد آبنائے ہرمز ہے، لیکن جو گذشتہ دنوں حالات پیش آئے، اس سے انہیں بخوبی معلوم ہوگیا کہ اس جملے سے ایران کی مراد کیا تھی۔

اگر ایران کا تیل نہیں بکے گا تو علاقے میں کوئی کنواں رہے گا، نہ بندرگاہ، نہ کوئی آئل پائپ لائن اور نہ ہی کوئی ریفائنری جس سے تیل برآمد کیا جا سکے۔ یہ جو ایران کے اتحادی ایک فنی ضربت سے سعودی عرب جو چند روز قبل ایران کے مقابلے میں اکڑ رہا تھا، کے تیل کی آدھی برآمدات کو روک سکتے ہیں، یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے علاقے میں خود ایک بہت بڑا پیغام ہے، جس سے وہ بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں۔ ایک کویتی عہدیدار کے بقول ابھی ایران نے چھینک ماری تو سعودی عرب کے تیل کی آدھی برآمدات نابود ہوگئیں، وائے عربوں کے حال پر اگر ایران کو نزلہ ہو جائے۔ سب جانتے ہیں کہ ایرانیوں کی آئیڈیالوجی اور طالبانیوں کے نظریات میں کس قدر اختلاف ہے، لیکن آپ نے دیکھا کہ امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوتے ہی بلافاصلہ طالبان کا وفد تہران پہنچ گیا۔ یہ بھی امریکیوں کے لیے ایک بڑا پیغام تھا۔ اس لیے کہ 80 ہزار امریکی فوجی علاقے میں ایران اور اس کے اتحادیوں کی تلوار کی دھار کے نیچے ہیں۔

امریکی اب تک یہی سوچتے تھے کہ ایران کے اتحادیوں سے مراد حزب اللہ، انصار اللہ، حشد الشعبی اور حماس ہیں، لیکن آج وہ متوجہ ہوچکے ہیں کہ ایران کی پالیسی اس قدر لچکدار ہے کہ وہ امریکہ سے مقابلہ کے لیے اپنے نظریاتی دشمنوں کو بھی اپنے قریب کرسکتی ہے۔ ان تمام حالات کے پیش نظر دنیا کے بہت سارے ممالک خصوصاً مغربی ممالک جو علاقے میں کسی بھی جنگ سے شدید نقصان اٹھا سکتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ ایران کے ساتھ امریکہ کی کشیدگی کو کم کریں اور یقیناً اس مقصد کے لئے وہ امریکہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ایران کے خلاف اپنے موقف میں تبدیلی لائے۔ جی ہاں، یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی صدر تمام سفارتی رسمیں توڑ کر ایرانی وزیر خارجہ کو ملنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اسے سیاسی لغت میں کہتے ہیں قومی عزت و وقار اور اسلامی نظام کے مقابلے میں سامراجی نظام کی شکست۔

ای میل کریں