جب خمینی مسکرائے تو گلاب اگنے لگے
جب کھلے لب ہای حق تو انقلاب اگنے لگے
فرش سے تا عرض بوئے تھے دعاؤں کے جو بیج
انکے تابش سے ہزاروں آفتاب اگنے لگے
عالمان دین جب کرنے لگے محسوس ضعف
آیہ تطہیر کے ان پر شباب آنے لگے
عصمت نسواں کو جب کھانے لگے بے پردگی
انکے دم سے بے نقابی پر نقاب آنے لگے
شیعیت کی جس زمین پر اگ رہی تھی شیطنت
اس پہ فقہ جعفری کے ماہتاب اگنے لگے
جب خمینی نے جلاوطنی میں لیں انگڑالیاں
اس ادائے حق سے باطل کے جواب اگنے لگے
صاحب غیبت کی جب تایید کے برسے سحاب
خوشہائے دین سے عزت مآب اگنے لگے
پیروی شیطان اعظم کی جہاں تھی ہو رہی
اب وہاں پر عاشقان بوتراب اگنے لگے
پہلے تو بشریت کے چند پودے ہی اگے
پھر شہ دین کے مقاصد بے حساب اگنے لگے
بوئے تھے اشک عزا کے جو خمینی نے چراغ
بن کے وہ دنیا میں مہر انقلاب اگنے لگے
توڑ ڈالے دانہ تسبیح کے اعجاز سے
جس جگہ ایران میں خیبر کے باب اگنے لگے
جو قلم کے تھے دھنی وہ منقلب اتنے ہوئے
ان میں بھی ابن مظاہر کے شباب اگنے لگے
جن گھروں میں اہل حق کے سجتے تھے جام شراب
اب وہاں فقہ امامت کے اگنے لگے
اے امام منتظر غیبت سے آکر دیکھئے
منتظر جو تھے وہاں بھی اضطراب اگنے لگے
اے خمینی او دے دے اہل حق کو اے خدا
فتنه صہیونیت کے پھر عذاب اگنے لگے
خون اصحاب حسینی جو زمین پر تھے گرے
وہ ہوئے طوبی سے اونچے تو شہاب الگنے لگے
مجلس و ماتم سے نالاں اور خمینی کے خلاف
ایسے بھی شیعوں میں کچھ خانہ خراب اگنے لگے
لمس رومال جناب سیدہ پایا ضیا
مجلسوں میں جب بھی اشکوں کے سحاب اگنے لگے