نذرانہ چشم نم / جہاد خمینی زندہ ہے

نذرانہ چشم نم / جہاد خمینی زندہ ہے

اے امت مرحومہ کےلئے نعمت کبری، اے رہبر انقلاب، اے امام خمینی کبیر! ہماری دعائیں تمہیں نہ بچا سکیں۔ شاید یہاں کا تمہارا کام، تمہارا امتحان ختم ہوچکا تھا۔

۴ جون ۱۹۸۹ء جس کی پھونک سے وہ روشن چراغ خاموش ہوا ہے، اسے ہم ایک منحوس دن کہتے مگر کیسے کہیں جبکہ چشم بینا یہ منظر دیکھ رہی ہےکہ اس کا نور نکہت اجالا اور چاندنی پھیلتی ہی جا رہی ہے۔

جس طرح ہمارے رہبر اعظم(ص) کے ظہور پر قصر کسری سرنگوں ہوگیا اور پھر کفر کے تمام آثار منقلب ہوتے گئے ویسے ہی اس فرزند توحید واولاد پیغمبر کے مستور ہوتے ہی دیوار برلن ریزہ ریزہ ہوکر تمام اشتمالی واشتراکی خرمنوں تک پہنچی اور برق طور بن کر، لیکن ہم تو اس کو اپنے دوست کی تجلی سے ہی تعبیر کریں گے کوئی کچھ کہے اس کا منہ کیوں بند کریں۔

اس نے کہا تھا کہ شرق وغرب کے بھیڑیئے تمہارے گوسفند کے گلوں کی تاک میں ہیں اس سے خبردار رہنا۔

آج اس دیدہ ور کے پردہ پوش ہوتے ہی ہم نے دیکھ لیا کہ اسلام کے خلاف اور صہیونیت کی موافقت میں دونوں خونخوار متحد ہوگئے ہیں۔ بیت المقدس کو امریکہ نے اسرائیل کی راجدھانی مان کر مسئلہ فلسطین کو حرف غلط بنانے کا خطرناک اقدام کر رکھا ہے۔

اے امت مرحومہ کےلئے نعمت کبری، اے رہبر انقلاب، اے امام خمینی کبیر! ہماری دعائیں تمہیں نہ بچا سکیں۔ شاید یہاں کا تمہارا کام، تمہارا امتحان ختم ہوچکا تھا۔ تم بھی مطمئن تھے اور وصیت نامہ میں لکھا کہ میں دنیا سے مسرور وہشاش بشاش جا رہا ہوں، زہر کا پیالہ پینے کے بعد، ایسا کہنا واقعی خمینی ہی کا کام ہے۔ سقراط ہاتھ باندھ کر تم سے بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔

اے خمینی! ایسا نہیں کہ آج مسلمانوں کو ہوشیار اور بیدار کرنے والا کوئی نہیں؟ شرق وغرب میں تمہارے فرزند پھیلے ہوئے ہیں۔ خامنہ ای ہیں جو تمہارے قائم مقام وجانشین ہیں مگر جو رعب ودبدبہ تمہارا تھا وہ کوئی کہاں سے لاسکتا ہے جس نے اتنی عظیم سلطنت وطاقت کے سربراہ گورباچوف کی برہمی کو نظرانداز کرتے ہوئے اسلام کی دعوت دی اور کمیونزم کی موت کی خبر بد برملا سنائی۔ خمینی کی جرات وروحانی طاقت کوئی کہاں سے لائے جس نے یورپی تجارتی منڈی کے بائیکاٹ کے بعد بھی مقدسات اسلام وپیغمبر اسلام کی توہین کرنے والے سلمان رشدی کو نہیں بخشا، نہ فتوی میں کوئی تبدیلی کی۔ یہ خمینی کی معنوی قوت ہی ہے کہ ان کی موت کے بعد بھی دنیا کے مسلمانوں میں قتل رشدی کا فتوی زندہ ہے۔

اے ہمارے عزیز رہبر! امام بت شکن خمینی آج تم نہیں ہو مگر تمہاری روح یہ دیکھ کر شاد ہو رہی ہوگی کہ کس طرح برطانیہ کے دلیر مسلمان، لبنان کی غیور امت، فلسطین کے بے بس ومجبور عوام تمہارے پرچم کو بلندتر کرتے ہوئے موت وحیات کی کشمکش میں الجھے ہوئے ہیں۔ متبسم چہرے اور بلند حوصلوں کے ساتھ تمام ممالک اسلامی میں حکومت اسلامی کا شور بڑھتا جا رہا ہے۔ اسلامی حجاب ایک عظمت پاچکا ہے۔ شہادت زیور حیات مانی جا چکی ہے۔ مظلومین ومستضعفین کا ہر مستبد کو احساس ہوچکا ہے اور ان کے جبر وظلم کا سورج لب بام آنے ہی والا ہے۔

اے امام مسلمان کےلئے محسن کی یاد اس کا شکریہ وظیفہ شرعی اور تمغہ امتیاز ہے۔ وہ تمہیں بھلا دے اس کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں قبلہ اول سے محروم کی جانے والی امت "یوم قدس" مناتی رہےگی۔ فروری کا ابتدائی عشرہ دہہ فجر بن کر تمہاری حیات کو سرخ روشنائی سے آفاق کی لوح پر لکھتا رہےگا۔ جہاد خمینی زندہ ہے۔ خمینی کی جنگ جاری ہے اور اب اس آفتاب زندہ کی کروڑوں کرنیں ظلم وجبر کی چھاتی کےلئے ناسور بن چکی ہیں اور ہر آنے والے سال میں تمہاری برسی کے موقع پر اس کا حساب کتاب کیا جائےگا۔

 

منبع: صداقت پونے، امام خمینی نمبر

ای میل کریں