علی ربیعی

امریکہ کی خاموش جنگ ، ایرانیوں کی زندگی کو نشانہ بنائے ہوئے ہے

امریکہ کی خودسرانہ اور ظالمانہ پابندیوں پر تنقید

امریکہ کی خاموش جنگ ، ایرانیوں کی زندگی کو نشانہ بنائے ہوئے ہے

حکومت ایران کے ترجمان علی ربیعی نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں امریکی وزیرخزانہ کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہ پابندیاں جنگ کی متبادل ہیں کہا کہ امریکہ ، جنگ کے بجائے پابندیاں عائد کرکے مالی ذرائع ، دواؤں اورغذاؤں کے ذریعے عوام کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

علی ربیعی نے کہا کہ یقینا امریکی دباؤ اور پابندیاں ، عالمی امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہیں  اور یہ ایک طرح سے بے سہارا انسانوں پر جنگ مسلط کرنا ہے۔

حکومت ایران کے ترجمان نے امریکا کی ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے  مقصد کے بارے میں کہا کہ واشنگٹن اس طرح کے اقدامات سے معاشرے کا چین و سکون چھیننا چاہتا ہےایران کی حکومت کے ترجمان نے تاکید کے ساتھ کہا کہ واشنگٹن نے اگر دھمکیوں کو عملی جامہ پہننانے کی غلطی کی تو اسے ایران سے منھ توڑ جواب ملے گا ۔

علی ربیعی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے  کہ ایران اپنے مسلمہ اصول کے تحت پڑوسیوں کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرے گا کہا کہ علاقے کے عوام جانتے ہیں کہ ایران ان کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

 

امریکہ کی خودسرانہ اور ظالمانہ پابندیوں پر تنقید

ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کیوان خسروی نے الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل سے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ایٹمی معاہدے پرعمل درآمد سے امریکا کی علیحدگی اور پابندیوں اور اقتصادی دہشت گردی کے حربوں کا استعمال ایک قوم پر ظلم کرنے کی ایسی احمقانہ توجیہہ  ہے جس کے سہارے سبھی  وعدہ خلافیوں کے باوجود ہٹ دھرمی کی جا رہی ہے۔

ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ امریکا نے ایٹمی معاہدے سے نکل کر جسے اقوام متحدہ کی سلامتی  کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی بھی تائید حاصل ہے عملی طور پر عالمی امن و صلح کو خطرے سے دوچار کردیا ہے مگر وہ مذاکرات اور بات چیت کا ڈھونگ رچا کر عالمی رائے عامہ کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی ریاست جنوبی کیرولینا کے ریپبلیکن سینیٹر نے ہفتے کو بین الاقوامی قوانین اور ایٹمی معاہدے کی شقوں کے برخلاف کہا  کہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم نہیں ہونا چاہئے -

امریکی سینیٹر لنڈسی گراہم نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک ڈیموکریٹک سینیٹر کے ساتھ وہ ایٹمی معاہدے کی جگہ ایک علاقائی معاہدے کے لئے بل تیار کر رہے ہیں۔

اس سے پہلے امریکی وزیرخارجہ مائیک پمپیونے بھی کہا تھا کہ ایران کے پاس کسی بھی سطح کا افزودہ یورینیم نہیں ہونا چاہئے۔ امریکی حکام کے یہ بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب این پی ٹی معاہدے نے سبھی رکن ملکوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لئے افزودہ یورینیم تیار یا رکھ سکتے ہیں۔

ایران نے انیس سو اڑسٹھ میں این پی ٹی پر دستخط کئے تھے۔ علاوہ ازیں ایٹمی معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے مطابق بھی یورینیم کی افزودگی کے تعلق سے ایران کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

سلامتی کونسل کی قرارداد  بائیس اکتیس نے ایران کو یورینیم کی افزودگی کا جو حق دیا ہے اس نے سبھی ملکوں کے لئے ایک نافذ العمل بین الاقوامی دستاویزمیں تبدیل کردیا ہے۔

ویانا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں روسی نمائندے میخائل اولیانف نے ابھی حال ہی میں امریکی حکام کے اس طرح کے بیان پر کہ ایران کو افزودہ یورینیم رکھنے کا حق نہیں ہے حیرت کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یورینیم کی افزودگی این پی ٹی کے سبھی رکن ملکوں کا مسلمہ حق ہے۔

ای میل کریں