جوہری معاہدے پر دستخط کرنیوالے ممالک اس پر عمل درآمد یقینی بنائیں
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے "یوریشیائی اکنامک یونین" کے اجلاس کے دوران روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کیساتھ ملاقات کی ہے جس میں جوہری معاہدے (JCPOA) سمیت خلیج فارس و آبنائے ہرمز میں امن و امان اور ایران کیطرف سے پیش کئے گئے "ہرمز امن منصوبے" (Hormuz Peace Initiative) پر گفتگو ہوئی۔
صدر اسلامی جمہوریہ ایران، ڈاکٹر حسن روحانی نے گفتگو کے دوران ایرانی جوہری معاہدے کو بین الاقوامی مسائل کے حل کیلئے کامیاب سفارتکاری کے نتیجے میں حاصل ہونیوالا ایک کارآمد نمونۂ عمل قرار دیا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کی کامیابی اس پر دستخط کرنیوالے ممالک کیطرف سے اس پر مکمل عملدرآمد اور تمام ممالک کی حمایت پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران، اس معاہدے پر دستخط کرنیوالے تمام ممالک سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے جبکہ اس حوالے سے روس کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔
ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے آبنائے ہرمز میں آزاد کشتیرانی اور خلیج فارس سمیت پورے خطے میں امن و استحکام کی حفاظت کو اسلامی جمہوریہ ایران کی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس، دریائے اومان اور آبنائے ہرمز میں پائیدار امن و استحکام صرف اور صرف خطے کے ممالک کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے "ہرمز امن منصوبے" پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ تمام ممالک کی انرجی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے آزاد کشتیرانی اور تیل سمیت تمامتر قدرتی وسائل کی آزادانہ نقل و حمل پر مشتمل ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اس ملاقات کے دوران ایرانی جوہری معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی کہ اس معاہدے پر دستخط کرنیوالے ممالک کیطرف سے اس پر عملدرآمد کروانے کیلئے روس اپنی تمامتر کوششیں بروئے کار لائے گا۔
فوجی کاروائی خلیج فارس میں کسی قسم کا امن و امان نہیں لاسکتی
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکہ کے گمراہ کن اقدامات کے بےاثر ہو جانے کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج دنیا کے بہت سے مسائل بہت سے دوسرے ممالک کیلئے واضح ہوچکے ہیں۔ محمد جواد ظریف نے عرب نیوز چینل "المیادین" کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپی حالیہ سفارتی سرگرمیوں میں یمن کے مسئلے کو دنیا کے بہت سے ممالک کیلئے واضح کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر اسلامی جمہوریہ ایران ڈاکٹر حسن روحانی سمیت ایرانی سفارتی ٹیم، یمن میں ہونیوالے عالمی جنگی جرائم کیطرف سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے اٹھائے جانیوالے گمراہ کن امریکی اقدامات کو بےاثر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی استکباری طاقتیں یمن پر مسلسل سعودی جارحیت کیطرف سے عالمی توجہ ہٹا کر تمامتر ذمہ داری ایران کی گردن پر ڈالنا چاہتی تھیں جبکہ اس مسئلے کو نہ صرف ایرانی صدر کے خطاب میں بیان کیا گیا بلکہ ہم نے تمامتر میڈیا کے سامنے بھی اس موضوع پر گفتگو کی۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ یورپی ممالک ایران پر عائد کی جانیوالی غیر قانونی پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بارے میں تاحال سنجیدہ نہیں ہوئے، لیکن جارح ملک سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات "آرامکو" پر مظلوم ملک یمن کے جوابی حملے کی فوراً مذمت کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اصلی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے گروپ کی مزاحمت سے دنیا کو اوجھل رکھنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں جس کی حمایت کرنیوالا کوئی نہیں جبکہ اس کے مقابلے میں لڑنے والا دنیا کا طاقتور ترین فوجی اتحاد جس کے پاس دنیا کا جدید ترین اسلحہ بھی موجود ہے، بےبس ہوچکا ہے، کیونکہ انکے لئے یہ بات سخت ہے کہ آرامکو پر حملوں کو یمنیوں کیساتھ منسوب کر دیا جائے، لیکن اس میں ایرانی کردار ہونے کے حوالے سے ان کے پاس کسی قسم کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یمن پر حملہ آور طاقتیں ایک طرف سے ایران پر الزام عائد کرنا اور دوسری طرف سے یمن میں ہونیوالی اپنی شکست پر پردہ ڈالنا چاہتی ہیں۔
محمد جواد ظریف نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کیطرف سے خلیج فارس میں موجود امریکی اتحاد میں شمولیت کے بعد خطے کے امن و امان کو لاحق شدید خطرات کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس کے علاقے میں کسی قسم کی فوجی کارروائی نہ صرف اس خطے میں امن و امان نہیں لا سکتی بلکہ خطے میں موجود تناؤ میں بھی شدید اضافے کا موجب بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیئے کہ وہ امریکہ سے اپنی سلامتی خرید نہیں سکتا جبکہ صدام، طالبان اور داعش کے ذریعے سے اپنی سلامتی حاصل کرنے کے 40 سال کے تجربے کے بعد اب تو انہیں ان تجربوں کے بےفائدہ ہونے پر یقین آ ہی جانا چاہیئے۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایران نے ڈونلڈ ٹرامپ کیساتھ نمائشی قسم کی ملاقات کو ردّ کر دیا، کہا کہ کسی بھی قسم کی گفتگو کا دارومدار ایران پر عائد کردہ تمامتر پابندیوں کے خاتمے پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان کسی بھی قسم کی ملاقات نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ کام 5+1 ممالک کے سربراہ اجلاس کا ہے، لیکن 5+1 سربراہ اجلاس کا انعقاد بھی ایران پر عائد تمامتر پابندیوں کے خاتمے کیساتھ مشروط ہے جبکہ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرامپ نے (ملاقات کے مطالبے کیساتھ) یہ نہیں کہا کہ سربراہ ملاقات کے بعد ایران پر عائد تمامتر پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔