قدس؛ امت مسلمہ کے اتحاد کا محور
مذاہب اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ اور حوزہ و یونیورسٹی کے اعلی کلاسز کے استاد ڈاکٹر محمد حسین مختاری نے رسولخدا (ص) کی ولادت کی مناسبت سے اپنی نوٹ میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور مسئلہ قدس کے درمیان وحدت کے لازمی ہونے کی تحقیق امت اسلامی محور کے عنوان سے لکھی ہے۔
پوری آخری صدی میں عالم اسلام نے بہت ہی خصوصی حالات کا سامنا کیا ہے اور کررہا ہے، دنیا اور عالم اسلام پر حاکم حالات اور شرائط کی روشنی میں اسلامی اتحاد اس دور میں ایک ناگزیر ضرورت بن گیا ہے اور معاشی و سیاسی میدانوں میں مسلمانوں کی تقدیر کا اٹوٹ حصہ بن گیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا لازمی ہونا اور امت مسلمہ کی ترقی اور بلندی کے لئے اختلاف اور تفرقہ سے پرہیز کسی پر پوشیدہ نہیں ہے، کیونکہ آزاد اور مسلم اقوام کی خوشبختی ان کے درمیان اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح تفرقہ اور اختلاف امت مسلمہ کی بدبختی کا سرچشمہ ہے۔
امت مسلمہ کےدرمیان اتحاد اور یکجہتی کے بارے میں وحدت آفرین اور اہم پوائنٹ کے عنوان سے برادری کا ذکر ہوا ہے۔ وحدت اور اسلامی اخوت اور برادری، کہ دینی مآخذ اور کتابوں میں ذکر ہوئی ہے، سے مراد وہ اتحاد ہے جو انسانیت کو خدائے واحد اور ایک مقصد کی جانب لے جائے۔ قرآن کریم کے مختصر سا جملہ "انما المومنون اخوة" کے ذریعہ اپنے ماننے والوں کو بہت ہی لطیف محبت اور دوستی اور خوبصورت ترین مساوات اور برابری کی جانب رہنمائی کررہا ہے۔
یہ قرآنی اور روائی تعلیمات کہ امام خمینی (رح) کی رفتار و گفتار اور اغراض و مقاصد کی اصل و اساس اور اسی طرح مقام معظم رہبری، ترقی پذیر سیاست اور مطالبات کا جز ہے، یہ اس وقت عملی ہوسکتا ہے جب مذاہب اسلامی کے ماننے والوں کے درمیان قلبی رابطہ ہو۔
بیشک اس وقت عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ فلسطین کا موضوع ہے اور اسلامی ممالک اس اہم اور حیات بخش موضوع اور فلسطینی عوام پر ہونے والے ظلم و جور کے مقابلہ میں فریضہ رکھتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ فلسطینی عوام پر یہ جرائم اس وقت ممکن ہے جب علاقہ کے عرب ممالک یا غاصب صہیونی حکومت ظالموں کے ہم خیال اور ہمراہ ہوگئے ہیں۔ لہذا وحدت کانفرنس کا ایک اہم امتیاز وحدت اسلامی اور قدس کا موضوع ہے اور یہ خود مسلمانوں کے درمیان اپنی بات منوانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے، اور دوسری طرف عالم اسلام میں ایک اہم امر اور ایک ایسے مسئلہ کے عنوان سےکہ جس کے بارے میں تمام مذاہب اسلامی کو تشوش ہے۔
صہیونیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور انسجام کا حامل ہے۔ اس کے باوجود ہمارا سامنا بین الاقوامی صہیونیزم اور وحدت اسلامی کانفرنس کرنا ہے اور عالم استکبار کی تجاویز اور منصوبوں اور سازشوں سے مقابلہ کرنا ہے۔ واضح ہے کہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین کی جانب واپس جانے کا حق رکھتے ہیں اور امریکہ سفارت کا قدس شریف میں منتقل کرنا فلسطینی عوام کے جائز اور حق حقوق سے بے توجہی اور ان کے حقوق کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور بین الاقوامی معیاروں اور امنیتی ادارہ کی خلاف ورزی ہے اور انسانی اخلاق و کردار کے خلاف ہے۔ البتہ سب پر روشن ہے کہ ہم اسرائیل غاصب حکومت کو غیر قانونی جانتے ہیں اس لحاظ سے اس سفارت خانہ قانونی جواز نہیں رکھتا کہ قدس منتقل کیا جائے۔
وحدت اسلامی کانفرنس در حقیقت اس حساس دور میں اسرائیل کی غاصب حکومت کے خلاف مسلمانوں بالخصوص علمائے اسلام کی نفرت اور بیزاری کی ایک جھلک ہے اور اس اہم مسئلہ میں سنگین ذمہ داری اور رسالت ہے۔