اولاد کی تربیت کے بارے میں امام باقر (ع) کا ارشاد
امام باقر (ع) فرماتے ہیں:
"ہم اہلبیت (ع) کے بچے جب پانچ سال کے ہوجاتے ہیں تو ہم انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں، لیکن تم لوگ اپنے بچوں کو 7/ سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو۔ ہم 7/ سال کی عمر میں انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی جسمانی توانائی کے بقدر نصف روز، اس سے زیادہ یا کم روزہ رکھیں اور یہ بھی حکم دیدیتے ہیں کہ جب بھوک اور پیاس کا غلبہ ہو تو افطار کرلو۔ یہ کام اس لئے ہے تا کہ وہ نماز اور روزہ کی عادت ڈال لیں، لیکن تم لوگ اپنے بچوں کو 9/ سال کی عمر میں ان کی توانائی کے بقدر روزہ رکھنے کا حکم دو۔ اور جب ان پر بھوک اور پیاس کا غلبہ ہوجائے تو افطار کرلیں۔" (کلینی، اصول کافی، ج 3، ص 409)
ان روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ان کے بچپنے ہی میں نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کی مشق کرانی چاہیئے تا کہ آہستہ آہستہ ان کی عادت پڑجائے اور بالغ ہونے پر بخوبی اس کے لئے آمادہ ہوں۔ دینی فرائیش کی انجام دہی کو بالغ ہونے تک تاخیر نہیں کرنا چاہیئے بلکہ پہلے ہی سے ان کے اندر واجبات و فرائض سے مانوس ہونے اور ان کی عادت ڈالنے کی کوشش کرانی چاہیئے تا کہ بالغ ہونے پر کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جو گھرانے اس امر کے لئے بچپن میں استفادہ نہیں کرتے عام طور پر مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں؛ کیونکہ جس نے فرائض کی انجام دہی کو نوجوانی، جوانی اور بڑے ہونے پر ہو اگر چہ وہ دینی معیاروں کا عقیدہ ہی رکھتا ہو لیکن عملی مشق اور روحانی آمادگی نہ ہونے کی بنا پر عام طور پر آسانی کے ساتھ دینی احکام و فرائض پر عمل نہیں کرسکتا۔ عام طور پر جو لوگ بڑے ہونے تک دینی اور عبادی فرائض کو انجام نہیں دیتے ہیں وہ دینی اصول اور قوانین پر عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ ایسے ہیں جو پہلے سے تمرین اور تیاری نہیں کی ہے، لہذا جو لوگ یہ کہتے ہں کہ بچہ بالغ ہونے کے بعد خود ہی اپنا راستہ اختیار کرے اور پہلے سے اسے عادت نہیں دینا چاہیئے تو یہ بات کسی صورت میں درست نہیں ہے، کیونکہ اگر بات صحیح مان لی جائے تو بالغ ہونے تک بچوں کا کام معطل کردینا چاہیئے جبکہ تربیت ایک معنی میں عادت ڈالنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
زہرا اشراقی امام خمینی (رح) کی نواسی نقل کرتی ہیں: آقا بچوں کی نماز کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کرتے تھے خاص کر یہ کہ بچے وقت سے نماز پڑھیں۔ (مجلہ سروش، شمارہ 476)
عاطفہ اشراقی بیان کرتی ہیں کہ میری عمر 10/ سال سے زیادہ نہیں تھی اور میں اپنے خالہ زاد بھائی اور اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی اور با حجاب بھی تھی، لیکن امام (رح) نے مجھے ایک دن آواز دی اور فرمایا: کیا تم شرعی فرائض کے لحاظ سے اپنے بہنوں سے فرق نہیں کرتی کیا وہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتی رہی ہو؟ اس دن کے بعد میں نے لڑکوں کے ساتھ نہیں کھیلا۔ (مجلہ زن روز، 1267، ص 47)