حضرت امام خمینی (رح) کی عراق سے پیرس ہجرت
جب امام خمینی (رح) سے عراق کی سلامتی کونسل کے سربراہوں کی ملاقات بے نتیجہ رہی تو نجف اشرف میں بعثی حکومت کی افواج نے امام کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ پھر بھی امام کے نظریہ میں سر مو فرق نہ آیا اور اپنے موقف پر اڑے رہے۔ آخر کار بعثی پارٹی کے کمانڈر نے امام کو عراق سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا۔ امام خمینی (رح) نے عراق سے کویت جانے کا فیصلہ کرلیا اور 12/ بہمن کو امام خمینی (رح) نے کویت کے ارادہ سے عراق کو ترک کردیا۔ لیکن کویت حکومت نے ایرانی حکومت کے اشارہ پر کویت آنے کی اجازت نہیں دی تو امام اور آپ کے ساتھی مجبورا بصرہ واپس آگئے۔
اس سے پہلے شام یا لبنان جانے کی بات تھی لیکن شام کے حاکم نے اجازت نہیں دی اور وہاں پر سیاسی سرگرمیوں کا امکان بھی معلوم نہیں تھا۔ امام نے اپنے فرزند "سید احمد خمینی (رح)" سے مشورہ کرنے کے بعد پیرس جانے کا فیصلہ کرلیا۔ فرانس میں کچھ دنوں تک امام کا قیام یورپ کے مسلمانوں تک پیغامات پہونچانے کا حسین موقع ثابت ہوا اور دوسرے ممالک میں سفر کرنے کا بہترین موقع فراہم ہوا۔ ایرانی مہینہ کی 1/ مہر کو امام کے گھر کا محاصرہ کیا گیا اور جب یہ خبر عام ہوئی تو ایران، عراق اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے درمیان غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
عراقی سلامتی کونسل کے سربراہ نے امام سے ملاقات کے وقت کیا تھا کہ آپ عراق میں رہ سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ شاہ سے جنگ اور مقابلہ نہیں کریں گے اور ایرانی سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس پر امام نے کہا تھا کہ امت مسلمہ کے مقابلہ میں میری جو ذمہ داری اور فریضہ ہے اس کے مد نظر خاموش نہیں بیٹھوں گا اور نہ ہی مصلحت کروں گا۔
اس کے بعد عراقی حکومت کا جب امام پر دباؤ بڑھتا گیا تو آپ نے اپنی تاریخی ہجرت کا فیصلہ کرلیا اور پر خطر سفر کے لئے تیار ہوگئے۔ ایسی ہجرت جس سے یورپ اور عالم مغرب میں دینی اور شیعہ مرجع کی حق طلب آواز اور تمنائیں مغرب کے قلب میں بھی جلوہ گر ہوئیں۔ امام خمینی (رح) نے اپنے سفر کے فیصلہ کے بارے میں کہا تھا: پیرس جانے کا تو کوئی خیال نہیں تھا صرف کویت اور شام ہی کے بارے میں ذہن میں تھا۔ یہ سب خدا کی مرضی سے ہوا ہے اس میں میرا کوئی عمل خاص نہیں ہے۔
امام خمینی (رح) نے 5/ اکتوبر کو پیرس کے ارادہ سے بغداد کو ترک کردیا اور 6/اکتوبر کو پیرس پہونچ گئے۔ امام کے وہاں پہونچتے ہی الیزہ محل کے نمائندوں نے امام سے ملاقات کی اور آپ تک اپنی حکومت کا پیغام پہونچایا کہ آپ یہاں پر کسی قسم کی سیاسی سرگرمی نہیں دکھائیں گے۔ امام نے اسی اعتماد کے ساتھ ان لوگوں کو بھی وہی جواب دیا جو عراق میں دیا تھا اور کہا کہ اس طرح کی پابندیاں ڈیموکریسی کے دعوی کے خلاف ہیں۔ میں جہاں بھی جاؤں گا حق کا پیغام پہونچاتا رہوں گا اور دنیا والوں کو بتاؤں گا کہ اگر دنیا کے سارے ظالم اکھٹا ہو کر ایک دوسرے ظالم کی مدد کریں تا کہ دنیا والے ہم مظلوموں کی آواز نہ سنیں پھر بھی میں ایران کی شجاع اور بہادر عوام کی آواز پورے عالم میں پہونچا کے رہوں چاہے مجھے ایک ہوائی اڈہ سے دوسرے ہوائے اڈہ ہی تک جانا میسر ہو۔ میں دنیا کو بتاؤں گا کہ ایران میں کیا ہورہا ہے۔
اس کے بعد فرانس کے حاکم نے امام کو فرانس ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا لیکن شاہ کے سیاسی نمائندوں نے منع کیا کیونکہ وہ لوگ عوام کے رد عمل سے باخبر اور خوفزدہ تھے اور یورپ اور ایران میں عوام کے رد عمل سے ڈر رہے تھے۔ امام خمینی (رح) نے نوفل لوشاتو میں اپنے چارماہ کے قیام کی دوران نوفل لوشاتو کو دنیا میں اہم اخبار کا مرکز بنادیا، آپ سے متعدد ملاقاتیں اور انٹرویوز ہوئے۔ امام اسلامی حکومت اور آئندہ کی تحریک کے اغراض و مقاصد کو بیان کرتے تھے۔ لوگ آپ کے افکار و نظریات سے آشنا تھے۔
خلاصہ حضرت امام خمینی (رح) جہاں بھی رہے۔ اسلامی اور انسانی انقلاب کا پیغام عام کرتے رہے اور باطل طاقتوں سے کبھی گھراؤ نہیں بلکہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام کی حقانیت اور انسان کی انسانی کرامت کو پیش کرتے رہے۔ خداوند عالم ہم سب کو امام خمینی (رح) کی طرح ائمہ معصومین (ع) اور انبیائے الہی کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔