اسلامی مزاحمتی بلاک کا عروج
تحریر: سید جعفر قنادباشی
2006ء میں حزب اللہ لبنان کے ہاتھوں اسرائیل کی عبرت ناک شکست کے بعد عالمی استعمار اور صہیونزم کے تھنک ٹینکس اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلامی مزاحمتی بلاک پر غلبہ پانے کیلئے پہلے اس کی شاخوں کو کاٹا جائے۔ لہذا اس حکمت عملی کے تحت پہلے شام کو اسلامی مزاحمتی بلاک سے جدا کرنے کی سازش پر عملدرآمد کا آغاز ہو گیا۔ 2011ء میں شام میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کی جانب سے خانہ جنگی کا آغاز اسی عبری، عربی اور مغربی مثلث کے انٹیلی جنس سربراہان کی مشترکہ سوچ بچار کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ مغربی طاقتوں کے کرائے کے تکفیری دہشت گرد عناصر نے ابتدائی چند ماہ اور سالوں میں اسرائیل کی جانب سے فراہم ہونے والی انٹیلی جنس معلومات، امریکہ سے ملنے والی فوجی تربیت اور عرب حکمرانوں کی مالی امداد کی بدولت کافی حد تک پیشقدمی کی اور حلب اور حماہ جیسے اہم شہروں پر قابض ہو گئے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی مشاورت کے ساتھ ساتھ حزب اللہ لبنان اور دیگر عوامی رضاکار فورسز کے آغاز کے بعد اسلامی مزاحمتی بلاک منظم انداز میں ان تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف نبرد آزما ہو گیا اور انہیں تیزی سے نابودی کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔
وہ فتنہ جو دمشق میں قانونی اور مشروع حکومت کے خاتمے کیلئے آغاز کیا گیا تھا مکمل طور پر برعکس نتائج پر منتج ہوا۔ شام آرمی اور اس کی حامی قوتوں کی پوزیشن انتہائی مستحکم ہو گئی اور یہ عبری، عربی اور مغربی سازش اسلامی مزاحمتی بلاک کے مزید طاقتور ہو جانے کا باعث بنی۔ اس وقت تکفیری دہشت گرد عناصر شام کے صوبہ ادلب کے کچھ علاقوں پر قابض ہیں جبکہ اس علاقے میں بھی شام آرمی نے آپریشن شروع کر رکھا ہے اور تیزی سے دہشت گرد عناصر کو کچلنے میں مصروف ہے۔ شام کی خانہ جنگی درحقیقت اسلامی مزاحمتی بلاک کو محدود کی دوسری بڑی کوشش تھی جو ناکامی سے روبرو ہوئی۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کی مدت صدارت کے آخری حصے میں یمن میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف ایک اور سازش کا آغاز ہو گیا۔ یمن کے خلاف سعودی سربراہی میں عرب اتحاد نے امریکہ، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کی شہہ پر اس نعرے سے جنگ کا آغاز کیا کہ ہم خطے میں دوسری حزب اللہ تشکیل نہیں پانے دیں گے۔ سعودی حکمرانوں نے طاقت کے نشے میں چور ہو کر یہ اعلان کیا تھا کہ وہ تین ہفتے کے اندر اندر یمن پر قبضہ کر لیں گے لیکن آج پانچ برس گزر جانے کے باوجود انصاراللہ یمن میدان جنگ میں برتر قوت کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
انصاراللہ یمن کی جانب سے عبری، عربی اور مغربی محاذ کو تیسرا زوردار تھپڑ رسید کئے جانے کے بعد اب وائٹ ہاوس اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی شاخوں پر وار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس کے مرکز کو نشانہ بنانا چاہئے۔ لہذا امریکی صدر کی میز پر "بھرپور دباو پر مبنی حکمت عملی" لائی گئی۔ وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایران کو کمزور کر کے دیگر امریکہ اور اسرائیل مخالف قوتوں کو بھی کمزور کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے ایران کے خلاف بھرپور اقتصادی جنگ کے ساتھ ساتھ فوجی جنگ کی دھمکیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ دوسری طرف ایران نے امریکی ڈرون مار گرانے اور برطانوی آئل ٹینکرز کو روک کر واضح کر دیا کہ وہ ہر قسم کی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرنے کیلئے مکمل طور پر تیار ہے۔ اسی طرح استعماری طاقتوں نے میڈیا پر یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ امریکہ اور اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ کرنا انتہائی مہنگا ثابت ہو گا۔ اس کا مقصد لبنان، شام، یمن، فلسطین اور حتی عراق کو امریکی یا اسرائیلی جارحیت کی صورت میں ایکدوسرے کی مدد اور پشت پناہی کرنے سے روکنا تھا۔
عاشورہ کے روز حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اس پروپیگنڈے پر پانی پھیرتے ہوئے کہا: "ہم ایران کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کو مسترد کرتے ہیں اور ایسی صورت میں اسے پورے اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف جارحیت قرار دیں گے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے ممالک نابود ہو جائیں گے۔ میں عاشورہ کے دن اسلامی مزاحمتی بلاک کا حصہ ہونے کے ناطے ایک بار پھر اپنے موقف کو دہرانا چاہتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کے ہم بے طرف نہیں ہیں۔ وہ جو یہ تصور کرتے ہیں کہ آئندہ ممکنہ جنگ اسلامی مزاحمت کے خاتمے پر منتج ہو گی جان لیں کہ ایسا نہیں بلکہ یہ جنگ اسرائیل اور خطے میں امریکی موجودگی اور اثرورسوخ کے خاتمے پر منتج ہو گی۔" اس سے پہلے ایران میں فلسطینی مزاحمتی گروہ اسلامک جہاد کے نمائندے نے بھی اعلان کیا تھا کہ ان کا گروہ حزب اللہ لبنان سے رابطے میں ہے اور ہمارے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس، اسلامک جہاد اور حزب اللہ لبنان کے درمیان مشترکہ میٹنگز منعقد ہوتی ہیں۔ اسی طرح انصاراللہ یمن اور حشد الشعبی عراق میں بھی مکمل تعاون اور ہم آہنگی موجود ہے۔ یوں اسلامی مزاحمتی بلاک بحیرہ روم کے سواحل سے لے کر خلیج فارس تک، فلسطین اور لبنان اور شام سے لے کر یمن اور عراق تک ایک پرچم تلے اسرائیل اور امریکہ کو نشانہ بنانے کیلئے زیرو آور کا انتظار کر رہے ہیں۔