عید غدیر چہاردہ معصومینؑ کی نگاہ میں

عید غدیر چہاردہ معصومینؑ کی نگاہ میں

مذہبِ تشیع کی بنیاد دو حدیثوں پر رکھی گئی ہے ایک حدیث ثقلین[1] ہے جس کا پیغام پیغمبر اکرمؐ نے تین مہینوں میں چار مقامات پر لوگوں تک پہونچایا اور دوسری عید غدیر ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حدیث غدیر، حدیث ثقلین کو پایہ تکمیل تک پہونچاتی ہے۔

عید غدیر چودہ معصومینؑ کی نگاہ میں

مذہبِ تشیع کی بنیاد دو حدیثوں پر رکھی گئی ہے ایک حدیث ثقلین[1] ہے جس کا پیغام پیغمبر اکرمؐ نے تین مہینوں میں چار مقامات پر لوگوں تک پہونچایا اور دوسری عید غدیر ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حدیث غدیر، حدیث ثقلین کو پایہ تکمیل تک پہونچاتی ہے۔

پیغمبر اکرمؐ نے قرآن و عترت کے سلسلہ میں جتنی تاکید ہے نیز حضرت امیر المومنینؑ کی جانشینی اور امامت کے بارے میں آپؐ کے اصرار سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ آپؐ اپنے بعد امت مسلمہ میں تفرقہ ایجاد ہونے کے بارے میں بہت خوفزدہ تھے۔ غدیر کو اہمیت دینا، پیغمبر اسلامؐ کی رسالت کو  اہمیت دینے میں پوشیدہ ہے لہذا ہم نے اس مقالہ میں غدیر کو اس کے حقیقی عارفوں یعنی پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ اطہارؑ کی زبانی بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

رسول خداؐ اور غدیر

شیخ صدوق نے اپنی کتاب " امالی " میں امام باقرؑ سے نقل کیا ہے کہ ایک دن رسول گرامی اسلامؐ نے حضرت امیر المومنین علیؑ سے فرمایا: اے علی، خداوندمتعال نے آیۂ کریمہ" یاایّها الرسول بلّغ ما انزل الیک من ربک " (مائدہ/۷۱) آپ کی ولایت کے بارے میں مجھ پر نازل کی ہے۔ لہذا جس چیز کا مجھے حکم دیا گیا ہے اگر میں اس کو نہ پہونچاؤں تو میرا عمل برباد ہے اور جو شخص تمہاری ولایت کو تسلیم نہ کرے اور اس دنیا سے چلا جائے تو اس کا کردار باطل ہے، اے علی میں وحی کے علاوہ اپنی طرف سے کچھ بولتا ہی نہیں ہوں۔( امالی شیخ صدوق، مجلس، 74، ص 400)۔

امام علیؑ اور غدیر

سلیم بن قیس ہلالی، ابو بکر کے ساتھ حضرت امیر المومنینؑ کی بیعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ثمّ اقبل علیهم علی فقال: یا معشرالمسلمین والمهاجرین و الانصار انشد کم الله ا سمعتم رسول الله یقول یوم غدیرخم کذا و کذا فلم یدع شیئا قال عنه رسول الله الا ذکرهم ایاه قالوا نعم" (کتاب سلیم بن قیس هلالی، نشر موسسه بعثت، ص 41) اس کے بعد علیؑ نے لوگوں سے فرمایا: اے مسلمانو! مہاجرین و انصار! کیا تم نے غدیر کے دن رسول خداؐ کو یوں بیان کرتے ہوئے نہیں سنا؟ اس کے بعد حضرت علیؑ نے ان سب چیزوں کی یاد دہانی کرائی جو پیغمبر اکرمؐ نے فرمائی تھیں تو سب نے کہا ہاں۔ اس سلسلہ میں حضرت علیؑ نے جن دلیلوں کی جانب اشارہ کیا ہے ان میں سے بعض دلیلوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے منجملہ ایک دلیل یہ ہے جسے انہوں نے ابو بکر کے سامنے بیان کیا کہ کیا غدیر کے دن پیغمبر اکرمؐ کی حدیث کے بنا پر میں تمہارا اور ہر مسلمان کو مولی ہوں یا تم؟ تو ابو بکر نے کہا: آپ ہو۔ (خصال شیخ صدوق، ص 505، باب اربعین، ج 30)۔

ابی الطفیل کہتے ہیں: شوریٰ کے دن میں اپنے گھر تھا اور میں نے سنا کہ علیؑ نے فرمایا: کیا تمہارے درمیان میرے علاوہ کوئی شخص ہے جس کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا ہو " مَن کنتُ مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه " جس جس کا میں مولی ہوں اس کے یہ علی مولی ہیں اے خدا اسے دوست رکھ جو علی کا دوست ہے اور اس کا دشمن بن جا جو علی کا دشمن ہے۔ تو سب نے کہا: نہیں۔ (امالی شیخ صدوق، ج 1، ص 342)۔

حضرت فاطمہ (س) اور غدیر

ابن عقدہ نے اپنی مشہور کتاب " الولایۃ " میں محمد بن اسید سے یوں نقل کیا ہے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا سے پوچھا گیا کہ کیا پیغمبرؐ نے اپنی رحلت سے پہلے حضرت امیر المومنین علیؑ کی امامت کے بارے میں کچھ فرمایا؟ حضرت زہرا سلام اللہ علیھا نے جواب دیا: واعجبا أ نسیتم یوم غدیرخم؟ (اثبات الهداه، حرعاملی، ج 2، ص 112، ح 473، مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص 2625) نہایت افسوس کہ کیا تم غدیر خم کو بھول چکے ہو؟!

فاطمہ بنت الرضاؑ نے فاطمہ بنت الکاظمؑ اور انہوں نے فاطمہ بنت الصادقؑ نے یوں نقل کیا ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ کی بیٹی جناب ام کلثوم نے نقل کیا کہ پیغمبر اسلامؐ نے غدیر کے دن فرمایا: من کنت مولاه فعلی مولاه " جس جس کا میں مولی ہوں اس کے علی مولی ہیں۔ (اثبات الهداه، ج 2، ص 112; احقاق الحق، ج 16، ص 282)۔

امام حسن مجتبیؑ اور غدیر

امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ جب معاویہ سے امام حسنؑ کی صلح ہوئی تو اس وقت امامؑ نے اس سے فرمایا: امت مسلمہ نے پیغمبر اکرمؐ سے سنا کہ آپؐ نے میرے بابا کے بارے میں فرمایا: انّه منّی بمنزله هارون من موسی " علی کو میرے ساتھ وہی نسبت ہے جو ہاعروں کو موسیؑ سے ہے۔ نیز امت نے دیکھا کہ پیغمبرؐ نے غدیر خم کے دن ان کو امام کے عنوان سے منصوب کیا ( امالی شیخ صدوق، ج 2، ص 171)۔

امام حسینؑ اور غدیر

سلیم بن قیس لکھتے ہیں: امام حسینؑ نے معاویہ کی موت سے پہلے خانۂ خدا کی زیارت کی اور زیارت کا شرف حاصل کرنے کے بعد تمام بنی ہاشم کو اکٹھا کر کے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے علیؑ کو غدیر کے دن منصوب کیا؟ سب نے کہا: ہاں۔ (سلیم بن قیس، ص 168)۔

امام زین العابدینؑ اور غدیر

مشہور تاریخ نگار، ابن اسحاق کہتے ہیں: میں نے علی بن حسینؑ سے پوچھا: من کنتُ مولاہ فعلی مولاہ " جس جس کا میں مولی ہوں اس کے علی مولی ہیں۔ کا مطلب کیا ہے؟ تو امامؑ نے فرمایا: اخبرهم انه الامام بعده" یعنی انہیں با خبر کیا کہ میرے بعد وہ امام ہیں۔ (معانی الاخبار، ص 65; بحارالانوار، ج 37، ص 223)۔

امام محمد باقرؑ اور غدیر

ابان بن تغلب کہتے ہیں: میں نے امام باقرؑ سے پیغمبر اکرمؐ کی فرمائش " مَن کنتُ مولاہ فعلی مولاہ " جس جس کا میں مولی ہوں اس کے علی مولی ہیں۔ کے بارے میں پوچھا تو امامؑ نے فرمایا: اے ابو سعید، پیغمبرؐ نے فرمایا: امیر المومنینؑ لوگوں کے درمیان میرے جانشین ہوں گے۔ (معانی الاخبار، ص 66)۔

امام جعفر صادقؑ اور غدیر

زید شحام کہتے ہیں: میں امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک معتزلی شخص نے ان سے سنت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت امام صادقؑ نے جواب میں فرمایا: فرزند آدمؑ کو جس چیز کی ضرورت ہے اس کا حکم سنتِ خدا و سنتِ رسول میں پایا جاتا ہے اور اگر سنت نہ ہوتی تو خداوندمتعال ہرگز بندوں سے مطالبہ نہ کرتا۔ اس شخص نے پوچھا: خداوندمتعال کس چیز کے ذریعہ ہمارے سامنے دلیل پیش کرتا ہے؟ تو امامؑ نے فرمایا: الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا " ( آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کیا اور دین اسلام کے سلسلہ میں تم سے راضی ہو گیا۔ لہذا خدا نے اس طریقہ سے ولایت کو تمام کیا اور اگر سنت یا فریضہ تمام نہ ہوتا تو خدا اس کے ذریعہ ہم سے مطالبہ نہ کرتا۔ (تفسیر برهان، ج 1، ص 446)۔

امام کاظمؑ اور غدیر

عبد الرحمن بن حجاج نے حضرت امام موسی بن جعفر علیھما السلام سے مسجد غدیر خم میں نماز کی ادائگی کے بارے میں پوچھا تو امامؑ نے جواب میں فرمایا: صلّ فیه فانّ فیه فضلا و قد کان ابی یامربذلک " اس میں نماز پڑھو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں نماز ادا کرنے میں بہت زیادہ فضلیت پائی جاتی ہے اور میرے بابا اس کا حکم دیا کرتے تھے (اصول کافی، ج 4، ص 566 )۔

امام رضاؑ اور غدیر

محمد بن ابی نصر بزنطی کہتے ہیں: میں امام رضاؑ کی خدمت میں تھا اور وہاں بہت بڑا مجمع تھا اس مجمع میں سب ایک دوسرے کے ساتھ غدیر کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، بعض لوگوں نے اس واقعہ کا انکار کیا تو امامؑ نے فرمایا: میرے بابا نے اپنے بابا سے روایت نقل کی ہے کہ غدیر کا دن اہل آسمان کے درمیان اہل زمین سے زیادہ مشہور ہے، اس کے بعد فرمایا: اے ابو بصیر! این ما کنتَ فاحضر یوم الغدیر" غدیر کے دن تم جہاں بھی ہو حضرت امیر المومنینؑ کے قریب ہونے کی کوشش کرو، اس میں شک نہیں کہ اس دن خداوندمتعال مومن و مسلمان مرد و عورتوں کے ساٹھ سال کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس دن ماہ رمضان میں آتش جہنم سے آزادی سے دوگنا آزاد کرتا ہے اس کے بعد فرمایا: والله لو عرف الناس فضل هذا الیوم بحقیقه لصافحتهم الملائکۃ کل یوم عشر مرات "  اگر لوگ اس دن کی اہمیت کو سمجھ لیتے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ فرشتے ہر دن دس مرتبہ ان سے مصافحہ کرتے۔ (تهذیب الاحکام، شیخ طوسی، ج 6، ص 24، ح 52; مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص 41)۔

امام محمد جوادؑ اور غدیر

ابن ابی عمیر نے اس آیت " یا ایّها الذین آمنوا اوفوا بالعقود " (مائدہ/۱) کے ذیل میں یوں روایت بیان کی ہے: پیغمبر اکرمؐ نے دس مقامات پر خلافت کی جانب اشارہ کیا اور اس کے بعد مذکورہ آیت نازل ہوئی ہے۔ (تفسیرقمی، ج 1، ص 160)۔

اس آیت کی وضاحت میں کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ آیت سورہ مائدہ کی پہلی آیت ہے اور یہ سورہ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والا آخری سورہ ہے اس سورہ میں آیۂ اکمال اور آیۂ تبلیغ بھی پائی جاتی ہیں جن میں واقعہ غدیر کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔

امام ہادیؑ اور غدیر

شیخ مفید اپنی کتاب ارشاد میں حضرت امیر المومنین علیؑ کی زیارت کو امام حسن عسکریؑ سے اور وہ اپنے بابا سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں: امام جوادؑ نے عید غدیر کے دن حضرت علیؑ کی زیارت کی اور فرمایا:  اشهد انک المخصوص بمدحه الله المخلص لطاعه الله۔ ۔ ۔ ۔  میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کی مدح آپؑ سے مخصوص ہے اور آپؑ اس کی اطاعت میں مخلص ہیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: خداوندمتعال نے حکم فرمایا: یا ایها الرسول بلّغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلّغت رسالته و الله یعصمک من الناس " اے رسول جس چیز کا تمہیں خدا کی جانب سے حکم دیا گیا ہے اسے پہونچا دو اور اگر آپؐ نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا اور خدا تمہیں لوگوں کے شرّ سے محفوظ رکھے گا۔ اس کے بعد بیان جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ نے لوگوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے ان سے پوچھا: جس چیز کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی کیا میں نے وہ پوری کی ہے یا نہیں؟ تو سب نے کہا: جی ہاں۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: اے خدا گواہ رہنا! اس کے بعد پھر فرمایا: أ لست اولی بالمومنین من انفسهم؟ فقالوا بلی فاخذ بیدک و قال من کنت مولاه فهذا علی مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و انصر من نصره و اخذل من خذله " کیا میں مومنین کے نفوس پر ان سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ سب نے کہا جی ہاں، اس کے بعد آپؐ نے علیؑ کو دونوں ہاتھوں پر بلند کر کے فرمایا: جس کا میں مولی ہوں اس کے یہ علی بھی مولی ہیں۔ (بحارالانوار، ج 100، ص 363)۔

امام حسن عسکریؑ اور غدیر

حسن بن ظریف نے حضرت امام حسن عسکریؑ کی جانب ایک خط لکھا اور اس میں سوال کیا کہ پیغمبر اکرمؐ کی اس فرمائش " مَن کنتُ مولاہ فعلی مولاہ " کا مطلب کیا ہے؟ امام حسن عسکریؑ نے جواب میں فرمایا: اراد بذلک ان جعله علما یعرف به حزب الله عندالفرقه " خداوندمتعال نے یہ ارادہ کیا ہے کہ یہ جملہ علامت و پرچم بن کر رہے تا کہ اختلافات کے وقت خدا کا گروہ اس کے ذریعہ پہچانا جا سکے۔

اسحاق بن اسماعیل نیشاپوری کہتے ہیں: حضرت امام حسن بن علیؑ نے ابراہیم کو یوں لکھا: خداوندمتعال اپنی رحمت و احسان کے ذریعہ واجبات کو تمہارے اوپر معین کیا اور اسے اس عمل کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ یہ اس کی رحمت تھی جو تمہارے اوپر نازل ہوئی اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اس نے ایسا اس لئے کیا تا کہ ناپاک کو پاک سے الگ کرے اور تمہیں آزمائے تا کہ اس طریقہ سے تم اس کی رحمت کی جانب گامزن ہو سکو اور جنت میں تمہارا مرتبہ معین ہو سکے لہذا اس نے حج و عمرہ، نماز کی ادائگی، زکات کی ادائگی، روزہ اور ولایت کو تمہارے حوالے کر دیا اور ایک دروازے کو تمہارے راستہ کے سامنے قرار دیا تا کہ تم واجبات کے دوسرے دروازوں کو کھول سکو، اس نے اپنی معرفت کے لئے ایک چابی قرار دی لہذا اگر محمدؐ اور ان کے جانشین نہ ہوتے تو تم حیوانوں کی طرح سرگردان و پریشاں ہوتے اور واجبات میں سے کسی واجب کو حاصل نہ کر سکتے، کیا دروازے سے ہٹ کر مکان میں داخل ہونا ممکن ہے؟ جب خداوندمتعال نے پیغمبرؐ کی رحلت کے بعد اوصیاء کو معین کرنے کے ذریعہ اپنی نعمت تم پر تمام کی تو فرمایا: الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا " (بحار الانوار، ج 37، ص 223)۔ آج کے دن میں نے دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین اسلام کے سلسلہ میں تم سے راضی ہو گیا یعنی میں راضی ہو گیا کہ اسلام ہی تمہارا دین ہو۔ اس کے بعد اس نے اپنے اوصیاء و اولیاء کے لئے تمہارے ذمہ کچھ حقوق قرار دئے اور تمہیں حکم دیا کہ ان کے حقوق ادا کرو تا کہ ان حقوق کی ادائگی کے ذریعہ عورتیں، اموال، خوراک و پوشاک تم پر حلال ہوں اور اس کے ذریعہ وہ برکت، ترقی اور ثروت کو تمہیں پہچنوا سکے اور (امام زمانہؑ کی ) غیبت کے ذریعہ تم میں سے اطاعت گزاروں کو پہچنوا سکے۔ (  علل الشرائع، ج 1، ص 249، باب 182، ح 66)۔

امام زمانہؑ اور غدیر

 امام زمانہؑ کی جانب منسوب دعا دعائے ندبہ میں ہم یوں پڑھتے ہیں: فلمّا انقضت ایامه اقام ولیه علی بن ابی طالب صلواتک علیهما و آلهما هادیا اذکان هو المنذر و لکل قوم هاد فقال والملاء امامه من کنت مولاه فعلی مولاه " اور جب پیغمبر اکرمؐ کی عمر کا زمانہ گزرا تو آپؐ نے اپنے وصیّ و جانشین علی بن ابی طالب علیھما السلام کو امت مسلمہ کی ہدایت کی ذمہ داری سونپی کیونکہ آپؐ منذر تھے اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی کی ضرورت ہے، پیغمبر اکرمؐ نے تمام لوگوں کو اکھٹا کر کے فرمایا جس جس کا میں مولی ہوں اس کے علی مولی ہیں۔



[1] ۔ مذکورہ حدیث کو متعدد منابع میں ذکر کیا گیا ہے جن میں سے بعض کی جانب ہم اشارہ کر رہے ہیں: السنه شیبانی، ص 337 و 629 ح 1551، صحیح ترمذی، ج 5، ص 663، سنن کبری بیهقی، ج 10، ص 114،  المستدرک، حاکم نیشابوری، ج 3،ص 110، فضائل الصحابه، احمد بن حنبل، ج 1، ص 171 و ج 2، ص 588، سنن ابی داود، ج 2، ص 185، طبقات کبری، ابن سعد، ج 2، ص 194، صحیح مسلم، ج 4، ص 1873۔

ای میل کریں