پہلی ذی الحجہ، تاریخ کی روشنی میں
ذی الحجہ کی پہلی تاریخ بہت ہی مبارک اور میمون ہے۔ اس دن بھی روزہ رکھنا مستحب ہے اور اس کا ثواب 80/ ماہ کے روزہ کے برابر ہے۔ اس دن حضرت زہرا (ع) کی نماز ہے جس کا طریقہ یہ ہے: چار رکعت نماز ہے جو دو سلام کے ساتھ پڑھی جائے گی۔ حضرت علی (ع) کی نماز کی طرح یعنی ہر ایک رکعت میں 1/ بار سورہ حمد اور 50/ بار سورہ "قل ہو اللہ احد" ہے۔ سلام کے بعد تسبیح حضرت زہراء پڑھے اور کہے: سبحان ذی العز الشامخ (مصباح الکفعمی، ص 409، 410)
ایک روایت کے مطابق اس دن حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کی پیدائش ہوئی ہے اور شیخین کی روایت کے مطابق اس تاریخ کو حضرت علی (ع) اور حضرت زہراء (س) کا عقد ہوا ہے۔ اسی دن سن 9/ ھ ق کو رسولخدا (ص) نے ابوبکر کو مکہ روانہ کیا تھا تا کہ وہ جاکر کفار کے سامنے سورہ برائت کی ابتدائی آیتوں کی تلاوت کرے لیکن ان کے روانہ ہونے کے بعد ہی جبرئیل امین نازل ہوئے اور فرمایا کہ یہ کام یا آپ خود انجام دیں یا وہ انجام دے جو آپ میں سے ہو؛ اور ایک دوسری روایت کے مطابق یہ ہے کہ یہ کام آپ خود کریں یا اپنے (وصی) علی (ع) سے کرائیں۔ اس کے بعد رسوخدا (ص) اپنی جانب سے حضرت علی (ع) کا انتخاب کیا اور فرمایا کہ جتنا جلد ہوجاؤ جاکر ابوبکر سے آیات برات لیکر حج کے موسم میں خود ان آیتوں کی تلاوت کرو اور ان لوگوں کو ابلاغ کردو کہ کوئی بھی خانہ خدا میں داخل نہ ہو مگر یہ کہ مومن ہو اور کوئی بھی برہنہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرے اور ایسا ہرگز نہ سمجھے کہ برہنہہے لہذا مادرزاد بچہ کی طرح ہر گناہ اور عیب سے پاک ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس سال کے بعد کسی کو حج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جس کافر نے بھی خدا اور اس کے رسول سے عہد کیا ہے وہ اس کی پابندی کرے۔ یہاں تک کہ وہ مدت تمام ہوجائے اور اگر اس نے کوئی معاہدہ نہیں کیا ہے تو اسے چار ماہ کی مہلت ہے یعنی 10/ ذی الحجہ سے 10/ ربیع الاول تک اور اگر اس کے بعد مسلمان نہ ہو تو اس کی جان و مال حلال ہے اور یہ بھی فرمایا کہ ابوبکر کو اپنے امر میں اختیار دے دو کہ اگر وہ تمہارے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو ٹھیک ورنہ انھیں مدینہ واپس بھیج دو۔
رسولخدا (ص) کے حکم پر آپ (ع) آیات برائت لیکر نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے مکہ پہونچ گئے اور اعمال حج بجا لائے اور ایام تشریق یعنی 13/، 14/ اور 15/ کو کفار و مشرکین کے مجمع میں آیات الہی اور فرمان رسول گرامی (ص) کی تین دن تک صبح و شام تبلیغ کی۔
روایت ہے کہ جب حضرت علی (ع) مدینہ سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے تھے تو حضرت علی (ع) کے بارے میں وحی منقطع ہوگئی اور رسولخدا (ص) پریشان ہوگئے۔ اصحاب کے درمیان غم و اندوہ کا ماحول بنا ہوا تھا اور ہر کوئی اپنا اپنا قیاس لگا رہا تھا کہ ابوذر نے کہا: یہ غم و اندوہ علی (ع) کے فراق کی وجہ سے ہے اور علی (ع) کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے ابوذر نکل پڑے اور جب راستہ میں ملاقات ہوگئی تو فرط مسرت سے جھوم اٹھے اور کہا کہ آپ آہستہ آہستہ آئیے تا کہ میں رسولخدا (ص) کی خدمت میں سب سے پہلے آپ کی سلامتی کی خبر دیدوں۔ حضرت نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ ابوذر تیزی کے ساتھ رسولخدا (ص) کی خدمت میں آئے اور حضرت علی (ع) کی سلامتی کی خوشخبری دی۔ یہ سن کر رسولخدا (ص) اپنے اصحاب کے ہمراہ حضرت علی (ع) کا استقبال کرنے کے لئےروانہ ہوگئے اور جب حضرت علی (ع) سے ملاقات ہوئی تو آپ نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔