جامعیت دین اور انسان کامل
انسان، قرآن اور معصومین (ع) کی احادیث کی روشنی میں ایک محترم، مکرم اور باعزت موجود مخلوق ہے۔ یہی انسان، اللہ کے اسماء اور صفات کی حامل اور مقام خلیفة اللهی سے مفتخر ہے کہ خداوند عالم نے اس کے گوہر کو علم و دانش، بصیرت اور مقام "الست بربکم" میں شہود سے بنایا ہے اور تعلیم، عقل و فطرت اور استعداد کی لیاقت انبیاء اور الہی سفیروں کے مدرسہ میں دی ہے۔
اس مقام پر امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: آدم، اللہ کے تمام اسماء و صفات کا مظہر اور جلوہ ہے اور تمام ملائکہ سے بالاتر بلکہ ساری موجودات عالم سے بلند ترین مرتبہ موجود ہے۔ لیکن یہ جسمانی بدن اسم الہی کا مظہر نہیں ہوسکتاہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لئے کوئی اور چیز درکار ہے جو تجرد سے بالاتر ہے اور وہ نفس ہے جس کے سجدہ کا تمام ملائکہ کو حکم ہوا۔ اور وہ اس "الله" کا مظہر جامع ہے کہ جب ملائکہ نے اعتراض کیا کہ ہم تیری تسبیح و تقدس کرتے ہیں تو فرمایا: "انی اعلم مالا تعلمون" پھر آدم کو حکم ہوا کہ تم خود کو ملائکہ کے سامنے پیش کرو اور ملائکہ دیکھتے ہی بلافاصلہ کہا: خدایا! تو جانتا ہے کہ ہم وہی جانتے ہیں جو تو نے تعلیم دی ہے۔ (تفسیر قرآن کریم، امام خمینی کے آثار سے ماخوذ، ج 1، ص 267)
قرآن کریم نے علم، علماء اور متعلمین کی شان میں اس درجہ اہتمام کیا ہے کہ انسان کو حیرت میں ڈال دیتا هے کہ قرآن کی کس آیت سے تمسک کرے، چنانچہ حضرت آدم (ع) کی تکریم اور تعظیم میں ارشاد فرماتا ہے: "و علّم آدم الاسماء کلھا؛ اور اس ذات نے آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی" اور تعلیم اسماء کو ملائکہ پر برتری اور فوقیت کی سبب قرار دیا اور ملکوت والوں پر ان کی فضیلت علم اسماء اور دانش کے ذریعہ ثابت کی۔ اگر اس مقام پر علم سے بالاتر کوئی اور حقیقت ہوتی تو خدا اس کے ذریعہ آدم کو ملائکہ پر فضیلت دیتا اور ابوالبشر کو فوقیت دی۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماء کا علم تمام فضائل و کمالات سے افضل و بالاتر ہے۔ اس اس سے مراد حقائق اسماء کا علم ہے ۔ ابلیس کے نظریہ کے مقابلہ میں کہ وہ صرف مٹی اور آپ پر نظر رکھتا تھا اور وہ عین جہالت اور ضلالت و گمراہی ہے۔ آدم کی ابلیس پر یہ فضیلت و برتری ایک کلی قانون اور دستور ہے۔ اولاد آدم کے لئے وہ خود کو مقام آدمیت تک پہونچائیں اور مقام آدمیت اسماء کی تعلیم ہے اور موجودات کی جانب ان کی نظر آیت اور اس کی نظر کی طرح ہو نہ ابلیس کی نظر کی طرح کہ استقلال کی نظر ہے۔ (تفسیر قرآن کریم، ج 2، ص 269)
یہی مذکورہ بالا امور دین اور انسان کامل میں پائے جاتے ہیں کہ وہ خود بھی عقل و فطرت کی تجلی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو انسان اور آدمی بنانے کی فکر میں رہتے اور بناتے ہیں اور موجودات عالم کے ہر ذرہ میں اللہ کا جلوہ اور اسمائے الہی کی تعلیم کا مظہر تصور کرتے ہیں۔ کاش ہم خود کود دین کے قانون کے مطابق ڈھال کر انسان کامل کا اتباع کرتے اور اپنی زندگی کے آغاز سے انجام تک دینی اور انسانی اصول و فرامین پر عمل پیرا بنا کر اپنی دنیا و آخرت سنوارتے۔
خداوند عالم ہمیں توفیق دے کہ انسان کامل اور دین الہی کے سچے اور مخلص ماننے والے ہوجائیں اور دوسروں کی عقل و فطرت کو تجلی بخشیں اور راہ نجات فراہم کریں۔ آمین۔