عالم خلقت اور دنیائے ہست و بود میں سب سے حسین اور خوبصورت ترین صورت انسان کامل کی ہے اور سب سے قیمتی موجود (کہ نفخت فیہ من روحی) کہ اس میں اپنی روح پھونک دینے کے ذریعہ روح الہی سے شرافت کی حامل ہوئی ہے اور اللہ کے اعظم اور خدا کے اسماء و صفات کی جامع موجود بنی ہے اور ملک و ملکوت کے حقائق اور خدائی گرانبہا خزانہ کا مالک انسان کا وجود ہے۔ وہ روئے زمین پر حق کا خلیفہ اور نمائندہ کے عنوان سے فریضہ رکھتا ہے علم و عمل کے وسائل سے حق اور عدل کا قیام کرے اور عبودیت و بندگی، روحانی اور معنوی کمال اور قربت خداوندی کے حصول کی راہ میں حرکت کرے اور دوسروں کو بھی اس راہ میں سیر و حرکت کرنے کی تشویق کرے اور ترغیب دلائے۔
عرفانی دنیا کے خورشید درخشاں حضرت امام خمینی (رح) جو خود عصمت پیشہ اور کمال یافتہ انسان کے نمایاں نمونہ اور مصداق ہیں، انسان کی وجودی عظمت کے بارے میں فرماتے ہیں: خبردار! انسان عینی، مثالی اور حسی تمام مراتب کی حامل ایک موجود ہے اور اس کے اندر تمام عوالم غیب و شہادت اور جو کچھ اس میں ہے اس کے وجود میں سمٹا ہوا اور پوشیدہ ہے۔ حضرت امیرالمومنین (ع) اور حضرت امام جعفر صادق (ع) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: آگاہ کہ انسان کی صورت موجودات پر اللہ کی سب سے بڑی حجت ہے۔ اور وہ وہی کتاب ہے جسے خداوند عالم نے اپنے ہاتھوں سے لکھا ہے اور وہ وہی ہیکل اور شکل ہے جسے خدا نے اپنی حکمت سے بنائی ہے۔ وہ عالمین کی صورت کا مجموعہ اور لوح محفوظ کا خلاصہ ہے وہ ہر غائب پر شاہد ہے، وہ ہر خیر و نیکی کی جانب سیدھی راہ اور جنت اور دوزخ کے درمیان کھینچی ہوئی راہ ہے۔
انسان خداوند عالم کی مخلوقات پر خدا کا نمائندہ اور جانشین ہے جو الہی صورت میں خلق ہوا ہے اور وہ حق کی سرزمین پر تصرف کرتا ہے۔ اور خداوندی اسماء اور صفات کی خصلتوں کو زیب تن کرکئے ہوئے ہے اور اس کے ملک و ملکوت کے خزانہ میں نفوذ کیا ہے اور اس کے اندر حضرت الہیہ کی روح پھونکی ہوئی ہے۔ اس کا ظاہر ملک و ملکوت کا نسخہ اور اس کا باطن خدائی خزانہ ہے جسے موت اور فنا نہیں ہے اور چونکہ عالم خلقت الہی کی تمام صورتوں کا جامع ہے، اسم اعظم کا تربیت یافتہ ہے جو تمام اسماء اور صفات پر احاطہ رکھتا ہے اور اسرے علائم اور نشانات پر حکومت رکھتا ہے۔
ہم اس نوشتہ میں خداوند عالم کے فضل و کرم اور اس کی تائید و نصرت انسان کی وجودی عظمت اور اس کی تمام موجودات پر برتری کے راز کو بیان کریں گے: یعنی انسانی کرامت و بزرگی کے موضوع کو ہم قرآن کریم کی روشنی میں بیان کریں اور اس کے درمیان مفسرین اور صاحبان نظر بالخصوص حضرت امام خمینی (رح) کو بیان کریں گے۔
کریم، فرومایہ اور پست انسان کی ضد ہے، کریم بلند ہمت، بزرگوار اور اعلی مرتبہ، عزت و جوانمردی کے حامل، مکرم اور بذل و بخشش کرنے والے کو کہتے ہیں۔ خلاصہ کرامت پستی اور فرومائیگی سے دوری کا نام ہے۔
کرامت کا ایک اور تحفہ ہے جو قرآن کریم کی روشنی میں خدا کی ظاہری مخلوقات کے درمیان صرف انسانوں سے مخصوص ہے اور اس شرافت، کرامت اور بزرگواری اور عظمت و شان سے روئے زمین کی کسی مخلوق اور موجود کی توصیف نہیں ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: "و لقد کرمنا بنی آدم... ؛ ہم نے اولاد آدم کو مکرم بنایا اور اسے خشکی و دریا پر فضیلت و برتری دی ہے۔" اس آیت میں آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق انسان کو دو قسم کی کرامت دی گئی ہے:
1۔ ذاتی کرامت جس کا صدر آیہ میں بیان ہوا ہے۔ 2۔ دوسری نسبی کرامت ہے جس کا ذیل آیت میں ذکر ہوا ہے یعنی "و فضلنا ہم علی کثیر مما خلقنا تفضیلا" کے ذریعہ۔
یہ فضیلت اور برتری، عظمت و بلندی صرف اور صرف انسانوں کو ملی ہی تو اس پر ہر انسان غور و فکر کرے کہ یہ عظمت و فضیلت ہمیں دی گئی ہے تو کیوں دی گئی ہے اور ظاہر مذکورہ بالا آیت میں انسان سے مراد مقام انسانیت ہے لہذا مقام انسانیت کے بارے میں بھی سوچے اور غور کرے کہ وہ کیا ہے۔ خود انسان کیا ہے، خدا نے اسے اشرف المخلوقات کیوں بنایا ہے، ایسے تاج کرامت و بزرگی کیوں عطا کیا ہے۔ کیا کسی کو یوں ہی کوئی مقام و مرتبہ مل جاتا ہے۔ ہر گز نہیں! بلکہ اس کی استعداد و لیاقت کی بنیاد پر ملتا ہے۔ خدا نے انسان کو سب سے قیمتی چیز عقل و شعور دیا ہے اب یہ ہمیں سوچنا ہے کہ عقل و شعور کیوں دیا اور انسانوں ہی کو کیوں دیا۔ اس کے دینے کا مقصد کیا ہے۔
انسانوں کو اپنی اس ذاتی کرامت اور اس مقام و مرتبہ کی حفاظت کرنی چاہیئے تا کہ وہ اللہ کا خلیفہ اور نمائندہ بننے کا حقدار ہو اور انسانیت کو راہ سعادت و کمال پر گامزن کرے۔