حضرت امام جعفر صادق (ع)، رسول اکرم (ص) کے ادب کے بارے میں فرماتے ہیں: رسولخدا (ص) نے کبھی اصحاب کے سامنے اپنے پاؤں نہیں پھیلائے اور اگر کسی مرد نے آپ سے مصافحہ کیا تو آنحضرت اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے اس وقت چھڑاتے نہیں تھے جب تک وہ خود چھوڑ نہیں دیتا تھا۔ جب آپ کے اصحاب و انصار اس موضوع سے باخبر ہوتے تو جب بھی ان میں سے مصافحہ کرتا تھا تو وہ اپنا ہاتھ ڈھیلا کرلیتا تھا اور اپنا ہاتھ حضرت کے ساتھ سے جدا کرتا تھا۔
رسولخدا (ص) اپنے اصحاب کی تعظیم و تکریم کی خاطر اور ان کے دلوں کو جتنے کے لئے انہیں ان کی کنیت سے پکارتے تھے کبھی ان کے نام سے نہیں پکارتے تھے۔ اور بچوں کے لئے کنیت قرار دیتے تھے تاکہ اس طریقہ سے ان کے دلوں کو نرم اور شاد کریں۔ کنیت ایک عنوان ہے جو عرب میں رائج اور مرسوم ہے اور انسان اپنے باپ یا اولاد ک ی طرف منسوب ہوتا ہے اور یہ احترام آمیز عنوان ہے۔
انس بن مالک کہتے ہیں: رسولخدا (ص) کے پاس پینے کی دو چیز تھی کہ اس میں سے ایک سحر کے وقت اور دوسری افطار کے وقت نوش فرماتے تھے۔ کبھی دودھ ہوتا تھا اور کبھی شربت ہوتا تھ جس میں روٹی توڑ کر ڈالی جاتی تھی۔ میں نے ایک رات اسے آمادہ کیا لیکن آنحضرت کو تاخیر ہوئی اور معمول کے مطابق گھر واپس نہیں آئے تو میں نے خیال کیا کہ شاید آپ کے بعض اصحاب آپ کو اپنے گھر لے گئے ہوں گے اور مہمان کرلیا ہوگا۔ لہذا اسے میں نے کھا لیا۔ پھر کچھ دیر بعد آنحضرت (ص) آگئے میں نے اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ آپ سے سوال کیا کہ رسولخدا (ص) نے کہیں افطار کرلیا ہے؟ آپ نے منفی جواب دیا۔ میں اس واقعہ سے بہت افسردہ و غمگین ہوا اور اس بات پر پریشان اور رنجیدہ ہوا کہ پیغمبر (ص) وہ افطاری مجھ سے مانگیں اور وہ موجود نہ ہو اور حضرت بھوکے رات گذاریں۔ اس لئے وہ رات میرے لئے بہت ہی سخت گذری لیکن حضرت رسول اکرم (ص) نے نہ اس شب مجھ سے طلب فرمایا اور نہ ہی اس وقت سے لیکر آج تک اس کے بارے میں مجھ سے کوئی بات کی۔
رسولخدا (ص) کی جانب سے اجتماعی اور سماجی آداب کی رعایت کرنے کی جانب توجہ آپ کے اپنے اصحاب سے رابطوں میں خلاصہ نہیں ہوتی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ہر انسان سے سلوک کرنے میں خواہ وہ غیر مسلم ہو اس موضوع کی رعایت کرتے تھے۔
حضرت امام باقر (ع) فرماتے ہیں: ایک دن ایک یہودی حضرت کی خدمت میں آیا اور پوری جسارت کے ساتھ حضرت سے خطاب کرکے کہا: "السام علیکم" پیغمبر (ص) نے اس کے جواب میں فرمایا: "و علیک" اس کے بعد ایک دوسرا یہودی آگیا اور اس نے بھی وہی کہا جو پہلے نے کہا تھا۔ آنحضرت (ص) نے اس کا بھی اسی طرح جواب دیا؛ عائشہ اس جگہ موجود تھی، ناراض ہوگئی اور انہیں برا بھلا کہا۔ رسولخدا (ص) نے اس سے فرمایا: اے عائشہ! اگر گالم گلوج مجسم ہوجاتی تو اس کی بہت ہی بری شکل ہوتی، مدارا جس چیز کے ساتھ کیا جائی اسے زینت دیتا ہے اور کوئی کام اٹھایا نہیں جاتا مگر یہ کہ وہ اسے بد نما بنا دیتا هے۔
یہودی نے رسولخدا (ص) کی توہیں کی تھی اور آپ کے لئے بد دعا کی تھی اور عائشہ نے اس کے مقابلہ میں آپ کا دفاع کیا ہے۔ اس کے باوجود حضرت نے ان کے کام کی مذمت اور ملامت کی اور نرمی، مدارا اور بردباری کی تاکید فرمائی اور گالم گلوج کرنے، برا بھلا کہنے کو اگر چہ وہ انسان یہودی ہی ہو، اسلام اور پیغمبر (ص) کا دشمن ہو اچھا اور پسندیدہ نہیں جانا ہے۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات برائی کا جواب رائی سے دینے کو نہیں کہتی ہیں۔ بلکہ حسن اخلاق اور احسان و نیکی کی دعوت دیتی هے۔
امام خمینی (رح) بھی فرمایا کرتے تھے: لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کے کاموں کو جلد سے جلد صحیح طریقہ سے انجام دو۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے اور تمہارے اعمال سے لوگ اسلام سے بدگماں ہوجائیں اور اسلامی تعلیمات پر حملہ کردیں۔ علماء اور روحانیوں زیر سوال چلے جائیں، اسلامی حکومت پر سوالیہ نشان بنے۔ محتاط رہو اور بہت دقت و ہوشیاری سے کام لو۔ لوگوں کا دل جتنے کی کوشش کرو۔