ربیع الاول کی دسویں تاریخ حضرت رسالت مآب (ص)، آفتاب عالمتاب، خورشید درخشاں اور نیر تاباں حضرت محمد مصطفی (ص) اور حضرت خدیجہ (س) کی شادی کا دن ہے۔ اسی دن ان دونوں عظیم ہستیوں نے شادی کی ہے اور عالم امکان اور جہاں ہستی کو اپنے جشن پر نور سے مزین فرمایا ہے۔
جس وقت حضرت رسولخدا (ص) نے جناب خدیجہ (س) سے شادی کی ہے، اس وقت آپ کی عمر مبارک 25/ سال اور حضرت خدیجہ (س) کی عمر 40/ سال تھی (یہ خود امت مسلمہ کے لئے بہت بڑا درس ہے کہ عمر کو ہر جگہ معیار نہ بناؤ اور عمر کی وجہ سے اچھے رشتوں سے فرار نہ کرو بلکہ کردار کو دیکھو اور کردار ساز اور اسلام کی معاون اور مددگار خاتون کے اخلاق و کردار، سیرت و رفتار کو ملاحظہ کرو یہ بھی بہت اہم عنصر ہے)
رسولخدا (ص) نے اپنے سے بڑی عمر کی خاتون باعظمت اور عفت مآب بی بی سے شادی کرکے رہتی دنیا تک کے لئے مثال قائم کردی اور امت مسلمہ کی مشکلات کا سد باب کردیا۔ سید نے فرمایا ہے اس دن اس عظیم نعمت کے شکرانہ کے طور پر روزہ رکھنا مستحب ہے۔ یہ دن بھی فرزندان اسلام اور امت مسلمہ کے لئے جشن و سرور اور محفل و مسرت کا دن هے۔ اس دن کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کا دن ہے۔ اس دن اسلام کی تقویت اور استحکام کا دن ہے۔ اسلام کو حضرت خدیجہ (س) سے بھی بہت قوت ملی ہے اور آپ کے دم قدم سے اسلام کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔ حضرت خدیجہ (س) سے اس وصال الہی کے بعد اسلام پر نکھار آئی ہے۔ حضرت خدیجہ (س) کی دولت اور زحمت سے اسلام پروان چڑھا ہے۔ پس دنیا کے مسلمان اور حضرت محمد (ص) کی امت اس دن خوشی کیوں نہ منائے، تاریخی واقعات کو یاد رکھیئے، ان کی یادوں میں برکتیں، اس دن جشن منانے، محفل سرور منعقد کرنے میں ہم انسانوں اور امت مسلمہ کا ہی فائدہ ہے۔ ہم ان ایام کی برکتوں، عظمتوں، شرافتوں، کرامتوں اور جلالتوں سے ناواقف اور بے خبر ہیں۔ یہ بہت ہی عظیم اور با برکت دن ہے ہم اس دن کی قدر کریں، اس کے اعمال و وظائف بجا لائیں، کم از کم لوگوں کو جمع کرکے بتائیں کہ آج کا دن کونسا دن ہے اور آج کے دن کونسا اتفاق ہواہے۔ محفلوں کا اہتمام کریں، لذیذ کھانوں کا بند و بست کریں اور ایسے آداب و رسوم بجا لائیں جن سے خوشی کا اظہار بھی ہو اور شریعت کی جانب سے کوئی ممانعت بھی نہ ہو۔
امت مسلمہ کے لئے یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ آج کے دن اسلام کو رونق ملی ہے۔ آج سے اسلام کا شجرہ ہرا بھرا ہوا ہے۔ اسلام کے چہرہ پر مسکراہٹ آئی ہے۔ دین الہی نے سکون کی سانس لی ہے۔ دینداری کی بنیاد پڑی ہے۔ دین و ایمان کی آبیاری ہوئی ہے۔ ہاں، اتنا یاد رہے کہ ہم جشن منانے میں اسلام اور اسلامی شخصیات کی توہیں نہ کریں، اپنے افعال و کردار سے اسلام کو داغدار نہ کردیں، شریعت کو مخدوش نہ بنائیں، مذہب پر سوالیہ نشاں نہ لگادیں۔
دینی تقریبات اور مذہبی پروگراموں کو ان کی اصلی ہیئت پر باقی رہنے دیں۔ ان ایام میں ہم ایسا کام کریں کہ اسلام کی برتری ثابت ہو، ہر طرف اسلام کی جلوہ گری ہو اور اسلام کو مرکزیت حاصل ہو، لوگ اسلام کی طرف خود بخود مائل ہوں۔ اسلام صلح و آشتی اور امن و سلامتی کا دین ہے لہذا اسلامی اعیاد اور پروگراموں اسلام کے علوم و معارف کو عام کریں نہ کہ خرافات اور بیہودہ اعمال و رفتار سے اسلام کو بدنام کردیں۔ اسلامی معارف کو واضح کریں، لوگوں کو اپنے کردار سے اسلام کا کلمہ پڑھوا ئیں۔
خداوند کریم ہم سب کو اسلامی افکار و نظریات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔