ملائکہ

کیا فرشتے اولاد آدم سے افضل ہیں؟

ملائکہ کی خلقت دوسری سمت ہے اور عالم مادیات سے مجرد ہے اور حیوانی خواہشات، عوارض اور رجحانات سے عاری و منزہ ہیں

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: "اور ہم نے تم کو اپنی بہت ساری مخلوقات پر فضیلت و برتری دی ہے" یہ آیہ کریمہ صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہے کہ اے بنی آدم ہم نے تم کو بہت ساری مخلوقات پر فضیلت اور برتری دی ہے۔ اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی آدم مخلوقات کے کون سے گروہ پر فضیلت اور برتری رکھتے ہیں؟

ملائکہ ان مخلوقات میں سے  ہیں جو محسوسات سے بالاتر اور بلند و بالا مقام کے حامل ہیں۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ بنی آدم ملائکہ کے علاوہ خدا کی تمام مخلوقات پر برتی رکھتے ہیں۔ دوسری طرف بعض آیات انسان کی فضیلت و برتری اور اس کے بلند مقام کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ انسان ملائکہ پر بھی فضیلت رکھتا ہے۔ بنابریں اس کا صحیح جواب حاصل کرنے کے لئے ہم تفسیروں کی بررسی اور چھان بین کریں گے اور اس کے سلسلہ میں مفسرین کے آراء و نظریات کی تحقیق کریں گے۔

عاملی کی تفسیر میں دونوں ہی نظریہ کی جانب اشارہ ہوا ہے یعنی احتمال ہے کہ "کثیر" اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس صورت میں آیت کا معنی اس طرح ہوگا: "ہم نے بنی آدم کو اکثر مخلوقات (کہ فرشتے اس میں نہیں ہیں) پر برتری دی ہے اور انسان فرشتوں پر فضیلت نہیں رکھتا" اور ممکن ہے "کثیر" جمیع کے معنی میں ہو یعنی بنی آدم کو تمام مخلوقات پر برتری دی ہے۔

متعدد تفسیروں میں کثیر "جمیع" کے معنی میں لیا گیا ہے اور دوسرے نظریہ پر پابند ہیں یعنی یہ کہ انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے، لیکن بعض تفسیریں فرشتوں کو انسان سے افضل اور برتر جانتی ہیں اس لئے کہ فرشتے شہوت اور غضب سے عاری ہوتے ہیں اور انسان میں یہ دونوں چیزیں موجود ہوتی ہیں۔

بعض لوگ عقیدہ رکھتے ہیں: بنی آدم خدا کی تمام مخلوقات پر فضیلت رکھتے ہیں جز فرشتوں کے ایک گروه کے جن میں جبرئیل، میکائیل، اسرافیل، اور عزرائیل ہیں۔

ایک دوسری جگہ پر آیا ہے کہ آیہ کریمہ فرشتوں پر ناظر نہیں ہے اور فرشتوں کے علاوہ کے بارے میں گفتگو کررہی ہے کیونکہ ان کی خلقت دوسری سمت ہے اور عالم مادیات سے مجرد ہے اور حیوانی خواہشات، عوارض اور رجحانات سے عاری و منزہ ہیں؛ کیونکہ فرشتہ دنیا میں خداوند عالم کی تدبیروں کے اجرا کرنے پر مامور ہیں۔ اسی طرح آیہ کریمہ انسان کے جن پر فضیلت کی بات نہیں کررہی ہے؛ کیونکہ ان کی بھی خلقت مادہ سے مجرد اور بطور مثال آگ سے ہے۔

تفسیر نور الثقلین میں ذکر ہوا ہے جب خداوند عالم نے حضرت آدم کی تعظیم و تکریم کرانی چاہیئے تو فرشتوں کا انسان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور سارے فرشتوں نے سجدہ کیا اور آپ کو جنت میں جگہ دی گئی تو انہوں نے اپنے دل میں کہا: "کیا خدا نے ہم سے افضل مخلوق پیدا کیا ہے؟" خداوند عالم نے انہیں محمد (ص) و آل محمد (ع) کا مقام و مرتبہ دکھایا تو انہوں نے دل میں آرزو کی کہ کاش میں ان کی جگہ پر ہوتا اور اس مقام و مرتبہ کا اہل و حامل ہوتا۔

مذکورہ بالا حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محمد (ص) و آل محمد (ع) کا مقام و مرتبہ فرشتوں سے بالاتر ہے اور ان کی امتیاز و برتری کی وجہ سے انسانی صلاحتیوں کو مرحلہ وجود میں لانا اور عبودیت الہی کی منزل تک پہونچنا ہے۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: "صرف انسان کامل ہی فرشتوں سے برتر ہے چونکہ یہی ہستیاں یعنی انسان کامل کی مصداق ذوات مقدسہ، تشبیہ اور تنزیہ کا مظہر اور اللہ کے تمام اسمائے حسنی کی جامع ہیں ۔"

ای میل کریں