انقلابِ خمینی (رح) کے عالمی اثرات

انقلابِ خمینی (رح) کے عالمی اثرات

انقلاب خمینی (رح) کو بھی ان چار عناصر کے تناظر میں دیکھا جائے اور دنیا کے دیگر انقلابات سے اس کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس کی برتری سب پر عیاں ہوگی

انقلابِ خمینی (رح) کے عالمی اثرات

عالم ہستی اپنے وجود میں تمام ان چیزوں کے ساتھ جو اس پر موجود ہیں، ایک چیز کی مانند ہے ، اس کی  ہر چیز دوسری چیز سے وابستہ اور مربوط ہے ۔ گویا ایک مشین کی طرح ہے جس کے مختلف پارٹس ہیں اور ہر پارٹ اپنا کردار ادا کرتا ہے اور ساتھ میں اس کام کی انجام دہی میں دوسرے پارٹس کا محتاج بھی ہے ۔ اسی لئے اگر دنیا کے کسی کونے میں اگر کوئی قابل ذکر تبدیلی یا انقلاب آجائے تو اس کے اثرات کا دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچنا  ناگزیر ہے۔

لیکن ایک انقلاب سے دنیا کس قدر متاثر ہوتی ہے اس کے لئے اس انقلاب کے ان تمام پہلوؤں کو پرکھنا ہوگا جو اس انقلاب کو کامیاب بنانے میں کلیدی کردار کے مالک ہیں؛ان پہلوؤں میں سب سے زیادہ اہم اس انقلاب کے اہداف، آئیڈیالوجی، قیادت اور انقلاب میں شریک عوام ہیں۔ جس قدر انقلاب کا ہدف عالی ہو، معقول اور بلند و بالا آئیڈیالوجی کے تناظر میں ہو ساتھ میں  کسی بصیر اور خبیر لیڈر اور قیادت کے سائے تلے ہو اور لوگوں کی شرکت بھی اس میں چشمگیر ہو تو ان چار اہم عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس انقلاب کی اہمیت اور تاثیر بہت زیادہ ہوگی اور جس قدر ان چیزوں میں کمزوری نظر آجائے انقلاب کے اثرات بھی کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ دیرپا بھی نہیں ہوسکتے۔

انہی چار چیزوں کو آخری صدیوں میں آنے والے  دنیا کے اب تک کے چار اہم اور مشہور انقلابات؛ 1789ء میں فرانس کا انقلاب، 1917ء میں روس کا انقلاب، 1962ء میں الجزائر کا انقلاب اور 1979ء میں ایران کے اسلامی انقلاب، میں مشاہدہ کرتے ہوئے انہی کو دنیا پر آنے والے اثرات کے حدود و ثغور  اور انقلاب کی اہمیت اور برتری کے لیے معیار بناسکتے ہیں۔

انقلاب خمینی (رح) کو بھی ان چار عناصر کے تناظر میں دیکھا جائے اور دنیا کے دیگر انقلابات سے اس کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس کی برتری سب پر عیاں  ہوگی۔

2500 سالہ شہنشاہیت کے جبرو استحصال میں پسی ہوئی ایرانی عوام اپنے اسلامی اقدار کو دن دھاڑے پامال ہوتے دیکھ رہی تھی اورہر کوئی جبر کو سہنے میں ہی نجات سمجھ رہا تھا،  ایسے میں ایک بابصیر قیادت امام خمینی رح‌ کی شکل میں سامنے آئی جس نےنظریہ ولایت اور نظام ولایت فقیہ کے تحت عدالت اور مساوت کے قیام کو انقلاب کے اہداف میں سے قرار دیتے ہوئےتحریک کا آغاز کیا  تو ایرانی  باشعور عوام نے امام خمینی کی ندا پر یک صدا لبیک کہتے ہوئے قیمتی جان تک کی قربانیاں پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا اور یوں کئی سالوں کی مسلسل جدوجہد سے یہ  اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔

جیسے ہی ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو مختلف ممالک میں بھی اس کو آئیڈیل بناتے ہوئے چھوٹی بڑی تحریکیں شروع ہوگئیں اور ہر شخص امام خمینی‌ کو آئیڈیل بناکر انقلاب کا خواہاں نظر آیا ۔

 غرض ہر انقلاب کے اثرات ہوا کرتے ہیں اور اسی حوالے سے مقالہ حاضرمیں  امام خمینی‌رحکے انقلاب کے عالمی اثرات میں سے بعض اثرات کومختصر طور پر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے:

 

1۔ دینی تشخص کا احیاء

عالم اسلام کے حالات اس قدر بگڑ گئے تھے کہ معاشرے سے دینی اقدار محو ہوتے نظر آرہے تھے، مذہب کو افیون سمجھا جاتا تھا، دینی اقدار کی پاسداری کو دقیانوسیت سمجھتے ہوئے دین اور مذہب کے اقدار و احکام کی پاسداری کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور دیندار لوگ بھی خود کو متدین کہلانے سے کتراتے تھے ۔ ایسے میں امام خمینی نے دنیا میں ایسا انقلاب برپا کردیا جس کی وجہ سے بےدینی ماہیت اسلامی اور دینی ماہیت میں بدل گئی۔

اسے دیکھ کر دیگر ممالک کے مسلمان بھی یہی سمجھنے لگے ہیں کہ اسلامی ممالک کی مشکلات کا راہ حل قرآن و سنت پر عمل کرنے میں ہے۔  جہاد اسلامی فلسطین کے معنوی رہبر جناب شیخ عبدالعزیز عودہ کا کہنا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات میں سب سے اہم اثر دینا کے مختلف ممالک کے مسلمانوں میں بیداری آنا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس انقلاب نے جوانوں کے دلوں میں ایمان راسخ کردیا اور اسلامی تعلیمات سے ان کو آشنا کردیا اور مسلمانوں کے دلوں میں اس امید کو زندہ کردیا کہ مسلمان دوبارہ سے کامیاب ہوکر اپنی پرانی عظمت اور جلال کو حاصل کرتے ہوئے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں[1]۔ 

جیسا کہ خود امام خمینی‌ رح نے علامہ ابوالاعلی مودودی صاحب سے ملاقات کے دوران  فرمایا : «دشمن کی کوشش تھی کہ اسلام کے چہرے کو مخدوش کرتے ہوئے اسے خلع سلاح کرے اور لوگوں کو یہ باور کرائے کہ اسلام سرمایہ داروں کا دین ہے۔ ان کی اس فریب میں بعض مسلمان غافل جوان بھی آگئے۔ پھر اسلامی رہبروں کو جوانوں کی نظر میں بدظن کردیا، مسلمانوں کے آپس میں علاقائی، نسلی اور ملی اختلافات ڈالا اور اس اختلاف سے دشمن نے اسلامی ممالک کے سرمایوں سے خود فائدہ اٹھایا ایسے میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھائیں اور اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تو سب اس کے خریدار ہونگے۔»[2]

 

2۔ اسلامی حکومت کا نظریہ

اکثر غربی مفکربلکہ اسلامی مفکروں میں سے بھی بعض کایہ نظریہ تھا کہ اسلام کے پاس حکومت تشکیل دینے کے لئے کوئی نظریہ نہیں ہے اور یہ اسلام کے بس میں نہیں ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حکومت قائم کرسکے۔ کیونکہ ان کا کہناتھا کہ ایک  حکومت کے لئے مستقل آئیڈیالوجی کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور موجودہ عصر کے تقاضوں کے مطابق اسلام کے پاس ایسی آئیڈیالوجی نہیں ہے جس کی وجہ سے اسلامی حکومت کا قیام ناممکن  ہے۔ لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان  نظریات اور قیاس آرائیوں پر پانی پھیر گیا ، نہ فقط اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا بلکہ دیگر ممالک کے لئے بھی نظریہ پیش کیا۔خمینرح کے اس انقلاب نے ثابت کردیا کہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق مستقل حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے جو ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا نے  کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اسی تناظر میں  ظلم و استبداد کے مقابلے میں بہت ساری اسلامی تحریکیں بین الاقوامی سطح پر ابھر گئیں ۔ لندن کے مسلم نیوز میگزین کے چیف ایڈیٹر احمد ورسی کا کہنا ہے کہ بغیر کسی خون خرابہ کے اسلامی انقلاب کی کامیابی نے مسلمانوں کے افکار کو بدل دیا اور یہ باور کرایا کہ عالَم اسلام میں ایسا انقلاب ممکن ہے ۔ایک عالم کو مسجد میں بیٹھ کر صرف روحانی باتیں کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہےاب اسلامی رہبر دنیا اور آخرت دونوں کا سوچتا ہے۔[3]

ایک  اورجگہ  امام خمینی رحفرماتے ہیں: دشمن نے اسلام کو مساجد اور مدارس کی حد تک محدود کردیا اور وہ مدارس بھی صدیوں  پہلے لکھی  جانے والی اسلامی کتابوں میں محصور ہیں۔[4] یوں انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کو باور کرایا کہ اسلام کے پاس اس کا اپنا مستقل نظام ہے اور اس نظام کے تحت دنیا میں عدل اور مساوات پر مشتمل حکومت قائم کی جاسکتی ہے۔

 

3۔ ظلم اور استکبار ستیزی

انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک ظلم اور استکبار کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہے۔ 2500 سالہ شہنشاہیت کے مقابلے میں بغیر کسی اسلحہ کے قیام کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن امام خمینی‌نے اس خطرے کو مول لیا اور نتیجہ بھی پا لیا۔

اسی کے پیش نظر فلسطینیوں کا غاصب اسرائیل کے مقابلے میں قیام، اسرائیل کے مقابلے میں 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی، عرب ممالک میں بیداری اسلامی کی وسیع تر لہر یہ سب اسی انقلاب کی استکبار ستیزی کے اثرات میں سے ہیں۔

اس کے علاوہ عراق اور شام میں استکبار جہانی کی حمایت یافتہ دہشتگرد گروہ (داعش) جب  ظلم و ستم کا بازار سجا چکا تھا اور اس کے اثرات ترکی، افغانستان اور پاکستان میں بھی نظر آنے لگے تھے ایسے میں ایک بار پھر اسی انقلاب اسلامی کے مرہون منت  اسلامی ممالک کو اس درندے سے نجات ملی۔

 

4۔  اسلامی اتحاد کا احیاء

دشمن کی کوشش تھی کہ اسلامی اتحاد پارہ پارہ ہوجائے اور کسی طرح سے بھی مسلمان مل بیٹھ کر عالم اسلام کی مشکلات کا راہ حل تلاش نہ کر سکے۔ انقلاب اسلامی نے دشمن کی ان سازشوں کے مقابلے میں ہر سال عالم اسلام کے دانشوروں اور مفکروں کو  وحدت اسلامی کانفرنس میں دعوت کرکے باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دیااور جب مسلم دانشور ایک دوسرے سے ملنے لگے اور ایک دوسرے کے نظریات سے آشنا ہوئے تو خود بخود دوریاں کم ہوئیں اور محبتیں بڑھنے لگیں ۔لیکن قسم خوردہ دشمن اب اس محبت کو ہضم نہیں کر پا رہا ہے اور نت نئے پروپیگنڈوں کے ذریعے اسلامی بھائی چارے کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہے اوراس سلسلے میں روز بروز مسلمانوں کی ذمہ داری بڑھتی جارہی ہےکہ وہ کسی بھی طرح سے دشمن کے عزائم کو ناکام بنادیں اور اسلام کی ترویج اور تبلیغ میں شب و روز کوشاں رہیں۔

البتہ اس مختصر تحریر میں بس اتنے ہی اثرات بیان کرنے کی گنجائش تھی لیکن امام خمینی‌رح کے اس عظیم انقلاب کے عالمی اثرات بہت زیادہ ہیں اور ہر شعبے کے اپنے الگ اثرات ہیں لیکن تحریر کے اختصار کے پیش نظر انہی چند ایک اثرات پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

 

تحریر: مشتاق حسین حکیمی

بشکریہ: شمس الشموس میگزین

..............................

[1] روزنامه همشهری مورخہ: 17/12/1372.

[2] مراجعہ کریں: صحیفه امام ، ج6 ،ص 294

[3] مهم‏ترین ویژگی امام از دیدگاه متفکران جهان، مجله سروش، سال پانزدهم، شماره 647، مورخ 8/3/1372.

[4] مراجعہ کریں: صحیفه امام ،  ج6 ،ص 294

ای میل کریں