انقلاب کے بعد پہلی بار
عالمی سفارتکاری کو تین بنیادی قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ آئیڈیالوجیکل، اسٹریٹجک اور انٹریسٹ بیس۔ دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی بھی سفارتکار ان تین اہداف کو سامنے رکھ کر ہی مذاکرات یا سفارتی سرگرمیاں آگے بڑھاتا تھا۔ موجودہ دور میں چند بلکہ ایران کے علاوہ کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو آئیڈیالوجی کو بھی اپنی سفارتکاری کی بنیاد قرار دیتا ہو۔ سرد جنگ کے دوران اسٹریجک اور کسی حد تک آئیڈیالوجی (سرمایہ داری+اشتراکیت) کو سامنے رکھ کر سفارتی اقدامات کیے جاتے تھے۔ لیکن موجودہ دور صرف انٹریسٹ اور مفاد کی سیاست کا دور ہے، البتہ امریکہ جیسے ممالک کے مفادات سامراجی ہوتے ہیں، جن کا حتمی نتیجہ امریکہ کا ملکی مفاد ہی ہوتا ہے۔ ایران کی فلسطین کے حوالے سے خارجہ پالیسی صرف اور صرف آئیڈیالوجی کی بنیاد پر ہے، وگرنہ اس سے ایران کا کوئی سیاسی و مالی مفاد وابستہ نہیں۔ اسی طرح ایران دنیا کے مختلف ممالک میں محروموں اور مظلوموں کے لیے آواز اٹھاتا ہے، جس سے بظاہر ان ممالک سے ایران کے تعلقات بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔
اسلامی موضوعات پر بھی ایران نے ہمیشہ دین اسلام کی عظمت اور بہتری کے لیے آواز اٹھائی اور جس ملک سے اسلام کی توہین کو کوئی اقدام ہوا، ایران نے تمام مادی اور ملکی مفادات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے دین اسلام کے دفاع کے لیے آگے بڑھ کر آواز اٹھائی، جس کی ایک مثال سلمان رشدی کو واجب القتل قرار دینا تھا۔ ایران کے اس فیصلے سے تمام یورپی ممالک نے ایران کا سفارتی بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے سفیر تہران سے واپس بلا لیے تھے، لیکن ایران کی وزارت خارجہ نے اس پر ایک قدم بھی پسپائی اختیار نہیں کی۔ آج بھی ایران امریکہ کے خلاف نبردآزما ہے اور امریکہ ایران کو شکست دینے کے لیے تمام حربے استعمال کر رہا ہے، لیکن ایران اپنے اصولوں پر ڈٹا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں ایک یورپی ملک کے وزیر خارجہ کے بعد جاپان کے وزیراعظم کا دورہ ایران جاری ہے۔ جاپان کے کسی بھی وزیراعظم کا یہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد تہران کا یہ پہلا دورہ ہے۔ جاپان ایران کے تیل کا بڑا خریدار رہا ہے، لیکن گذشتہ چالیس سال میں پہلی بار ہوا ہے کہ جاپان کے وزیراعظم تہران آئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس دورے پر عالمی ذرائع ابلاغ میں خوب چرچے کیے جا رہے ہیں۔
جاپانی وزیراعظم شیزو کے دورہ ایران کو کوئی امریکہ تہران ثالثی کی کوشش قرار دے رہا ہے، کوئی اسے خلیج فارس کی موجودہ جنگی صورتحال سے جوڑ رہا ہے اور کوئی امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرامپ کے گذشتہ ہفتہ کے دورہ جاپان سے نتھی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دورے کے نتائج بہت جلد سامنے آجائیں گے، لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایران کی سفارتکاری، اقتدار اعلیٰ کی مضبوطی، بہترین دفاع اور عوام کی طرف سے حکومت اور قیادت کی بھرپور حمایت اس بات کا باعث بن رہی ہے کہ عالمی سیاست کاری کا رخ تہران کی طرف ہوگیا ہے۔ تہران کو اپنے قدرتی وسائل اور اسٹرٹیجک جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں ایک واضح برتری حاصل ہے۔ جاپان، چین، ہندوستان سمیت تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک مجبور ہیں کہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھیں اور یہ وہ بنیادی نقطہ ہے، جو امریکی اور صہیونی تھنک ٹینکوں اور ٹرامپ و نتین یاہو جیسے عالمی بدمعاشوں کے لیے گلے کا کاںٹا بنا ہوا ہے۔