عید فطر
عید اور عید منانے کا موضوع انسان کے آغاز سے رہا هے اور اب تک چلا آرہا ہے اور اس کا ذکر دکھائی دیتا ہے؛ جیسا کہ حضرت آدم (ع) کے حالات میں موجود ہے کہ آپ نے حضرت نوح (ع) کے حالات اپنے فرزند ھبہ اللہ کے لئے بیان کرتے ہوئے فرمایا: خداوند عالم ایک پیغمبر کو مبعوث کرے گا جس کا نام نوح ہوگا۔ وہ لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دے گا اور لوگ اس کی تکذیب کریں گے۔ خداوند عالم طوفان کے ذریعہ ان سب کو ہلاک کردے گا اس کے بعد ہر ایک کو تاکید کرتے ہیں کہ تم میں سے جو بھی ان سے ملاقات کرے ان پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کرے اور ن کی تصدیق کرے، کیونکہ وہ غرق ہونے سے بچ جائے گا۔ اس کے بعد حضرت آدم (ع) اپنے بیٹے کو تاکید کرتے ہیں کہ اس وصیت کو سال کے آغاز میں یاد کرکے تجدید عہد کریں کیونکہ وہ دن ان کے لئے عید کا دن ہے۔
فرعون کے ساحروں سے حضرت موسی (ع) کا مقابلہ عید کے دن تھا کہ لوگوں نے اس دن زینت کیا تھا اور بازار کو آراستہ کیا تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم سے بھی فی الجملہ استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت موسی (ع) نے فرمایا: میرا اور تمہارا وعدہ زینت کے دن پورا ہوگا۔
اصحاب رس (درختوں کو پوجا کرنے والے 12/ شہر کے مالک تھے) ہر سال اپنے بڑے شہر میں جمع ہوتے اور مفصل طریقہ سے عید مناتے تھے، صنوبر کے بڑے درخت کے سامنے قربانیاں کرتے، آتش بازی کرتے، شراب پیتے، جوا کھیلتے تھے نیز اس دن موسیقی بجاتے، ناچ گانے، سجدہ اور عبادت میں گذارتے تھے۔
ابن عباس سے نقل کی روشنی میں یہود و نصاری بھی اپنے لئے ایک دن عید مناتے تھے۔ اسلام بھی متعدد اعیاد رکھتا ہے۔
اب سمجھنا یہ ہے کہ عید کا کیا مطلب، اس کا معنی کیا ہے۔ "عید" لغت میں اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن لوگ جمع ہوتے ہیں۔ یا اس دن کوئی حادیہ رونما ہوا ہو، یا پھر اس دن کسی صاحب فضل کی یاد منائی جائے۔ کہا گیا ہے کہ عید کو اس لئے عید کہتے ہے کہ اس دن ہر سال کی خوشی کی اس کے ذریعہ تجدید ہوتی ہے۔
مفردات میں کہتے ہیں: عید یہ ہے کہ کوئی چیز دوبارے واپس آئے اور شریعت میں یہ عید فطر اور عید قربان سے مخصوص ہے چونکہ شریعت میں روز عید کے لئے خوشی بنائی گئی ہے وہ بھی اس طرح سے کہ پیغمبر نے فرمایا ہے، (ایام تشریق) کھانے، پینے اور نکاح کے ایام ہیں لہذا جس دن بھی مسرت اور خوشی ہو اس دن کو عید کہتے ہیں اسی معنی میں ہے خداوند عالم کا قوم "اس نے ہمارے لئے آسمان سے دسترخوان نازل کیا تاکہ ہمارے لئے عید ہو۔"
صاحب مفردات پر اعتراض کرنا چاہیئے کہ آپ نے سال میں شریعت کے نزدیک صرف دو دن کو عید قرار دیا جبکہ ائمہ اطہار (ع) و غیرہ سے بے شمار روایات نقل ہوئی ہیں کہ اعیاد اس سے زیادہ ہیں۔ فرات بن اخنف سے روایت کی گئی ہے کہ امام صادق (ع) سے سوال کرتے ہیں: میں آپ پر قربان جاؤں کیا مسلمانوں کے لئے عید فطر، عید قربان، روز جمعہ اور عرفہ سے بالاتر کوئی عید ہے؟ وہ کہتے ہیں: حضرت نے فرمایا: ہاں، خداوند عالم کے نزدیک ان سے بہتر، شریف ترین اور بالاترین عید ہے اور وہ دن ہے جب خدا نے اپنا دین کامل کیا اور اپنے نبی محمد (ص) سے فرمایا: "میں آج کے دن تمہارے دین کو کامل کردیا۔"
غدیر کی خبر میں ابن عباس کہتے ہیں: اس دن پانچ عید جمع ہوگئی ہیں: جمعہ، غدیر، عید یہود، عید نصاری اور عید مجوس ، کہ جہاں تک سنا گیا ہے اس سے پہلے اس طرح کا اجتماع نہیں ہوا ہے۔
بنانریں عید کا دن عید گاہ میں مسلمانوں کے نماز عید پڑھنے کے لئے اجتماع کا دن ہے، مذہبی پروگرام کا دن ہے۔ اور خاندان محمد (ص) و آل محمد (ع) کی یاد منانے کا دن ہے جیسا کہ نماز عید کے قنوت سے معلوم ہوتا ہے ۔ سرور و رحمت کی واپسی کا دن ہے۔ اس دن خداوند عالم کی بہت ساری نعمتوں کے نازل ہونے، اس دن عید دینے اور لینے کا دن ہے۔
حسن اتفاق کہ یہ دن عمرو عاص ملعون کے واصل جہنم ہونے کا دن ہے اور اگر مسلمانوں اور شیعوں کے خوشی منانے کا اس کے علاوہ کوئی دن نہ ہوتا تو بھی یہی کافی ہوتا کہ دشمن دین و انسانیت آج کے دن واصل جہنم ہوا ہے۔ اس سے بڑی خوشی اور کیا ہوسکتی ہے۔
عید خدا کے لئےایک ماہ کے روزہ رکھنے کے بعد بطور شکرانہ خوشی منانے کا دن ہے اور روزہ داروں کے لئے یہ بہت بڑی خوشی ہے کہ خدا کی دی ہوئی عظیم نعمت کی قدردانی کی اور اس کی توفیق اس کے فرمان بجالائے اور خیر و خوبی، برکت، رحمت اور نزول نعمت کے دن تمام ہوئے لہذا جو واقعی روزہ دار ہوگا اور اس نے خدا کے لئے روزہ رکھا ہوگا، اس کی غرض بس خدا ہوگی یقینا وہ اس دن خدا کے بندوں کو خوش کرنے کی کوشش کرے گا، گلے ملے گا، مصافحہ کرے گا، ایک دوسرے کو مبارکباد کرے گا، اپنے دل سے کینہ و کدورت نکال کر، الفت و محبت کی عیدی تقسیم کرے گا، ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر اپنی خوشی میں دوسروں کو بھی شریک کرے گا۔ محبت کی سوغات بانٹے گا۔
خداوند عالم ہم سب کو واقعی خوشی نصیب کرے اور وہ عظیم دن کو قریب سے قریب تر کے تا کہ مصلح عالم انسانیت آئے اور مردہ و زندہ سب کو خوش کردے۔ آمین۔