استاد کی شہادت
شہید مرتضی مطہری 3/ فروری 1920 ء کو مشہد کے توابع شہر فریمان میں ایک روحانی گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ قابل ذکر ہے کہ آپ انقلاب اسلامی میں اہم شخصیت تھے۔ آپ کے دادا ملا محمد علی ممتاز علماء میں شمار ہوتے تھے اور اپنے گھرانہ کے ہمراہ یعنی مرتضی مطہری کے والد کے ساتھ خراسان کے ایک علاقہ کی طرف کوچ کرتے ہیں۔
آقا مطہری کے والد فریمان دیہات کی مانی جانی اور معروف شخصیت تھے اور مرتضی کے والد ملا آخوند خراسانی کے شاگردوں میں تھے اور آیت اللہ مرعشی نجفی جیسےبعض لوگوں نے ان کی کافی تعریف و توصیف کی ہے۔ مرتضی مطہری کے والد 1972ء کو 101/ سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ آپ کی ماں قوی حافظہ اور اعلی قدرت بیان کی مالک تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی والدہ حکمت اور طب کے بارے میں معلومات رکھتی تھیں اور فریمان دیہات کی عورتوں کا علاج کرتی تھیں۔ مرتضی مطہری نے اپنے والد کو طبیب روحانی اور ماں کو طبیب جسمانی کے عنوان سے یاد کیا ہے۔
مرتضی مطہری 1953 ء میں قم سے تہران ہجرت کر جاتے ہیں اور شہر کے مدرسہ مروی میں تدریس، تالیف اور تحقیقی تقاریر کا سلسلہ جاری کرتے ہیں۔ 1956 ء طالبعلموں کی اسلامی انجمن کی طرف سے تفسیر کا سب سے پہلا جلسہ منعقد ہوتا ہے اور اسی سال تہران یونیورسٹی میں الہیات اور معارف شعبہ میں تدریس کا آغاز کیا۔ پھر 1958ء میں ڈاکٹروں کی انجمن اسلامی بنانے کے بعد مطہری اس انجمن کے اصلی مقرر ہوگئے۔ آپ 1962ء سے 1972ء تک اس انجمن کے نے نظیر مقرر رہے۔
مرتضی مطہری اپنی سیاسی سرگرمیوں میں آیت اللہ خمینی کے ساتھ ساتھ تھے۔ اس طرح سے کہ تہران میں 1964ء میں 6/جون کے قیام اور ان کی روح اللہ خمینی سے ہم آہنگی کو ان کےدوران کے ساتھیوں کی کوشش کا نتیجہ جاننا چاہیئے۔ وہ آدھی رات کے بعد 1/ بجے شب میں محمد رضا شاہ پہلوی کے خلاف انقلابی اور جوشیلی تقریر کرنے کی وجہ سے پولیس کے ذریعہ گرفتار کرگئے، پھر تهران کے کچھ روحانیوں کے ہمراہ قید خانہ میں ڈال دیئے گئے۔ 13/ دن بعد شہروں کے علماء کی تہران ہجرت اور تمام علماء کے ساتھ عوامی دباؤ کی وجہ سے قید سے آزاد ہوگئے۔
شہید مرتضی مطہری ایک عالم باعمل، صادق القول، انسانیت کا درد رکھنے والے، بہترین مدبر اور مقرر، بہترین سیاسی شعور کے مالک انسان تھے۔ آپ پوری زندگی دشمنان دین و اسلام کا مقابلہ کرتے رہے، کمیونزم کی کمر توڑ دی، انقلاب کے سرکردہ لیڈر اور حامی رہے۔ ہمیشہ دشمن کی آنکھ کا تنکا بنے رہے۔ آخر کا دشمن کو آپ کا وجود گرامی برداشت نہ ہوسکا اور منگل کے دن شام کو 1/ مئی 1979ء ید اللہ سحابی کے گھر سے مٹینگ تمام کرکے کچھ انقلابی اور سیاسی افراد کے ہمراہ شب کی تاریکی میں جارہے تھے کہ مٹینک سے نکلتے وقت ہی گروہ فرقان کے ایک شخص نے گولی ماردی۔ آپ کو اسپتال میں لے جایا گیا لیکن وہاں جا کر دم توڑ دیا اور خدا کو پیارے ہوگئے۔ آپ کے قاتل تین آدمی تھے۔ محمد علی بصیری، حمید نیکنام اور وفا قاضی زادہ۔
مرتضی مطہری (رح) اپنی آخری سانس تک اسلام، قرآن، انسانیت اور حق و حقیقت کے لئے زبان و بیان، قلم و تحریر، قدم اور جان و دل سے لڑتے رہے اور دنیا میں بے شمار قیمتی آثار اور کتابیں چھوڑ گئے۔