ڈاکٹر صادق طباطبائی لکھتے ہیں کہ طالبعلموں کی اسلامی انجمنوں کے اتحادیہ میں بین الاقوامی روابط کا جب میں سکریٹری بنا تو اس کے 2/ یا 3/ ماہ بعد نجف گیا تا کہ اس ادارہ کا امام خمینی (رح) سے رابطہ قائم کردوں۔
میرے ساتھ بیرون ملک خاص کر یورپ اور امریکہ کی سیاسی صورتحال کی رپورٹ تھی۔ میں نے آپ کو دینے اور ایرانی مسلم طالبعلموں کی تنظیم کی سیاسی سرگرمیوں سے باخبر کرنے کے لئے حضرت امام کی خدمت میں جانے کا قصد کیا۔ اس رابطہ پہلے میں نے سید محمود دعائی سے خط و کتابت کی تھی اور جب نجف پہونچ گیا تو آقا دعائی کے کمرہ میں گیا پھر کچھ دیر گفت و شنید کے بعد میں نے ان سے کہا کہ میں ایسے حالات میں امام کی خدمت میں پہونچوں کہ وہ مجھے پہچان نہ سکیں تاکہ ان کے بارے میں ایک سیاسی لیڈر کے عنوان سے جو میں نے رائے قائم کی ہے اس کا اندازہ لگاؤں اور یہ بھی اندازہ ہو کہ آپ میرے خاندانی سابقہ کے بغیر میرے ساتھ اپ کا رویہ کیا ہوتا ہے۔
لہذا جب ہم لوگ امام کے گھر پر پہونچے تو آقا دعائی نے ان دونوں (امام کے دفتر کے مسئول)آقا رضوانی سے کہا کہ یہ ایک طالب علم مقیم امریکہ ہیں اور آقا سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ آقا رضوانی نے اطلاع دی اور کہا کہ آپ لوگ اندر تشریف لے آئیں۔ میں ایک خاص حالت اور دل گرمی کے ساتھ امام کے کمرہ کے اندر گیا اور گلے مل کر بیٹھ گیا۔ انہوں نے مجھے نظر اٹھا کر دیکھا اور کہا: تم آقا صادق ہو یا آقا جواد؟ میں نے آپ کے حضور ذہنی اور حافظہ پر بیحد تعجب کرتے ہوئے کہا: ماشاءاللہ! اس کے بعد میں نے ان سے کہا کہ میں نے کس وجہ سے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ یہ ملاقات یادگار اور دلچسپ تھی۔ لیکن پہلے جلسہ میں جو رپورٹ میں نے تیار کی تھی اس کو دکھانے کا موقع نہیں ملا۔ آپ نے میرے والد کے حالات پوچھے اور اس کے بعد میں نے نجف کے سیاسی حالات کی گفتگو شروع کی۔
میں نے کہا کہ سنا ہے کہ یہاں پر اسرائیل کی نسبت لوگ بہت سنجیدہ نہیں ہیں۔ آپ نے کہا: جی ہاں، ایک صاحب جنگ کے بعد (مراد اعراب اور اسرائیل کے درمیان جنگ تھی) میرے پاس آکر بیٹھے اور مجھ سے کہنے لگے آپ اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں اگر اسرائیل عراق پر قابض بھی ہوجائے تو اسے نجف کے حوزہ سے سروکار نہ ہوگا۔ میں نے دیگر مطالب جو سن رکھے تھے انہیں درد دل کے عنوان سے بیان کیا۔ اس کے بعد میں آپ کی خدمت میں تحریری رپورٹ پیش کی اور کہا کہ اور بھی باتیں ہیں کہ آج فرصت نہیں مل سکی چونکہ مغرب کا وقت ہوگیا تھا۔