حضرت علی اکبر (ع)

ولادت حضرت علی اکبر (ع)

بیت امامت اور ولایت کا پروردہ اور عصمت کدہ کا جوان ہے؛ جہاں انسانیت و آدمیت کا درس دیا جاتا تھا

حضرت علی اکبر (ع) 11/ شعبان سن 33 ھ ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین ہیں اور آپ کی والدہ گرامی، ابومرہ کی بیٹی جناب لیلی ہیں۔ آپ نے اپنے والد گرامی کے انسان ساز مکتب میں مکتب کے دفاع کا صحیح طریقہ اور امامت کی اطاعت اسلوب اور پاکیزه مقاصد کی حمایت کا سبق سیکھا۔ یہ روز عاشور پہلے شہید ہیں جنہوں نے سب سے پہلے جام شہادت نوش کیا۔

حضرت امام حسین (ع) کی اچھی تربیت باعث ہوئی کہ حضرت علی اکبر (ع) بہترین صفات کمالیہ کے مالک ہوئے۔ خانوادگی اصالت، تربیت، وراثت اور علم و فضائل کے حاصل کرنے کی کیفیت جو ہر انسان کی شخصیت کو بناتے ہیں۔ آپ کے وجود مبارک اور پاکیزہ زندگی میں موجود تھی، آپ کے عادات و اطوار، رفتار و گفتار، سیرت و کردار، ادب و ثقافت، سنجیدگی اور وقار اعلی حد تک تھے۔ جیسا کہ تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ کی رفتار و کردار پیغمبر (ص) کے مانند تھے۔ اسی وجہ سی لوگ آپ کو دیکھ کر پیغمبر (ص) کی شخصیت کو یاد کرتے تھے۔ حضرت علی اکبر (ع) رسولخدا (ص) کی ہو بہو تصویر تھے اور شجرہ طیبہ کی ایک شاخ اور پاکو پاکیزہ نسل اور اصل سے تھے اور خاندان عصمت و طہارت کی تمام خوبیوں کے وارث کہلاتے تھے۔ علی اکبر (ع) جوانی ہی سے تمام خوبیوں، فضیلتوں اور رسولخدا (ص) کی عترت طاہرہ کے فضائل و مناقب کے واضح نمونہ اور بولتی مثال تھے۔ یہاں تک کہ اہلبیت (ع) کا زبردست دشمن بھی اس بات کا اعتراف کرتے تھے۔

حضرت علی اکبر (ع) کا اپنے والد گرامی سے غایت درجہ ادب و احترام کا رابطہ اور باپ کی اپنے بیٹے سے محبت ان دونوں کی زندگی کے ہر مرحلہ اور موڑ پر فضیلت کا نمونہ تھی۔ اس کی انتہا کربلا کے میدان میں روز عاشور دکھائی پڑتی ہے۔ ولائی تربیت اور شائستہ ادب ہی تھا کہ علی اکبر (ع) ہمیشہ اپنے باپ کی خدمت میں ہوتے تھے اور آپ کے حکم کے منتظر رہے اور بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ اپ کی باتوں کو سنتے اور جاں نثاری اور قربانی کے لئے آمادہ رہتے تھے۔

بیت امامت اور ولایت کا پروردہ اور عصمت کدہ کا جوان ہے؛ جہاں انسانیت و آدمیت کا درس دیا جاتا تھا، جہاں سے علم و آگہی کی بنیاد پڑے ہے، جہاں سے حق و حقیقت کے دفاع کا آغاز ہوا ہے، جہاں وحی و الہام میں زندگی گذارنے والا جوان ہے، جہاں سے قرآن کی تعلیم دی گئی ہے۔ جو لوگ زمانہ کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ وہاں کا آراستہ جوان ہی جو پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنے باپ کے الہی اور خدائی مکتب اور ناموس شریعت کا دفاع کرتا هے۔ کسی صورت دین کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں اور اس راہ میں اپنے سروتن کی بازی لگا کر اللہ، رسولخد ا اور اپنے جد امیرالمومنین کو سرخرو کردیا اور اپنے مقام و مرتبہ کو ثابت کردیا کہ ایک انسان کی دنیا میں ذمہ داری کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔

ای میل کریں